صبح ساڑھے ساتھ آٹھ بجے کا وقت ہو گا‘ کورنگی کریک کے اوورہیڈ پل کے نیچے‘ میں نے دیکھا غربت و افلاس اور محرومی و مظلومی کا ایسا دل سوز نظارہ کہ بھلائے نہیں بھولتا۔پل کے نیچے جبکہ دکانیں کھل چکی تھیں۔ گاڑیوں کی آمدورفت شروع ہو چکی تھی فضا گاڑیوں کے ہارنوں اور راہگیروں کی آوازوں سے پر شور ہو چکی تھیں‘ پانچ سات افراد کا خاندان ابھی تک میلی کچیلی چادریں اوڑھے بے سدھ سو رہا تھا۔ البتہ ایک سات آٹھ سال کا بچہ جو غالباً بھوک سے بے تاب ہو کے ہنڈیا منہ سے لگائے کچھ پی رہا تھا۔ اس خاندان کو گھر کی چھت اور فرش میسر نہ تھا اگر میسر ہوتا تو پل کے نیچے کیوں سوتے۔ رات کو پیٹ بھر کھانا ملا ہوتا تو وہ بچہ جو سویرے اٹھ کے اپنی بھوک مٹانے کے لئے کیوں بے حال ہوتا۔ کورنگی کریک سے ذرا سے فاصلے پر ڈیفنس کا متمول علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں عالیشان کوٹھیاں اور کشادہ بنگلے میں جہاں مکینوں کی تعداد سے کہیں زیادہ کمرے ہیں جو خالی پڑے رہتے ہیں۔ نوکروں کے لئے سرونٹ کوارٹر ہیں اور کتے بلیوں کے لئے رہائش کا الگ انتظام ہے۔ غربت و امارت کی یہ خلیج ہمارے ملک میں دن بدن اور وسیع ہوتی جاتی ہے ایک طبقہ وہ ہے جس کے پاس زندگی کی آسائشوں کا ہر سامان‘ ہر نعمت موجود ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جو محروم و محتاج‘ بنیادی ضرورتوں کے لئے جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ امرا کا طبقہ وسیع و عریض بنگلوں۔ کوٹھیوں اور محلات میں رہتا ہے اور غریب غربا پلوں کے نیچے کھلے آسمان تلے پارکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑ کر راتیں گزارتا ہے۔ یہ دلخراش منظر ہم اتنے دنوں سے اور اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ اب ان کی المناکی ہمارے قلب پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ گویا ہم دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور دیکھ کر محسوس کر بھی لیں تو کوئی کر بھی کیا سکتا ہے۔ ہم سب ایک ظالمانہ‘ استحصالی نظام کے ماتحت اپنی زندگی گزارتے ہیں اور یہ سمجھوتے کی زندگی ہے۔ اپنے دل کی تسلی کیلئے ہم اسے خدائی نظام سے تعبیر کرتے ہیں جس میں فطری طور پر امیر و غریب کا فرق پایا جاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے یا نہیں سمجھتے کہ خدا بھی اس ظالمانہ استحصالی نظام کو جس میں دولت کی گردش کو روک کر ایک ہی طبقے کو اجارہ دار بنا دیا گیا ہے، پسند نہیں کرتا وہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ ان محنت کشوں کے لئے یوم مئی منایا جاتا ہے اور اس دن ہر ملازم پیشہ کو چھٹی ملتی ہے۔ نہیں ملتی تو اس محنت کش طبقے کو۔ ان ہی غریبوں‘ مزدوروں اور کسانوں کا نام لے لے کر سیاستداں ووٹ لیتے ہیں حکومت بناتے ہیں‘ شہرت کماتے اور اقتدار و اختیار کا کھیل کھیلتے ہیں۔ بدعنوانی اور بے ایمانی سے کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتے ہیں لیکن ان غریبوں کے دن نہیں بدلتے۔ شب و روز کی گراں باری ان کے پلوں پر بوجھل ہی رتہی ہے۔ شعرا‘ ادب ‘ قلمکار ‘ کالم نگار ان کی بابت شعر کہتے‘ افسانے اور کالم لکھتے ہیں اور ان کے سوز دل پہ بھی واہ واہ کے ڈونگرے برستے ہیں لیکن خود اس طبقے کی مظلومیت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ کارل مارکس نے لکھا تھا فلسفی اور مفکر دنیا کو بدلنے کی باتیں کرتے آئے ہیں لیکن اصل کام تو اسے بدلنا ہے ۔ ملک میں ایک اطلاع کے مطابق پچاس فیصد سے زائد آبادی خط افلاس یا غریبی کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے انہیں رہنے کے لئے چھت‘ کھانے کے لئے روٹی اور پینے کے لئے صاف پانی تک میسر نہیں۔ ننگے بھوکے لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے ۔غریب کا گزارہ پہلے سبزیوں پہ ہوتا تھا‘ روٹی اور دال ہی پہ اکتفا کرتے تھے۔ لیکن اب دالیں اور سبزیاں اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ سفید پوش متوسط طبقے کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت تن تنہا ملک بھر میں پھیلے ہوئے غریب اور محتاجی کے سائے کو دور نہیں کر سکتی تاوقتیکہ اس عمل میں ملک کا متمول اور صاحب حیثیت طبقہ آگے بڑھ کر ’’غریبی مٹائو‘‘ مہم کا حصہ نہیں بنتا۔ اس ملک سے جن طبقوں نے کمایا ہے اور اپنی ذات اور اپنے خاندان کو بنایا ہے۔یہ ذمہ داری ان کی بھی بنتی ہے کہ وہ اپنی دولت اور سرمائے میں محروم طبقے کو شریک کریں۔ کیا مشکل ہے دولت مند طبقے کے لئے وہ اپنے اپنے شہروں میں محتاج خانے تعمیر کر دیں۔ غریبوں کے بچوں کے لئے سکول کھول دیں یا دوا دارو اور علاج معالجے کے لئے ہسپتال اور کلینک کھلوا دیں جہاں سے انہیں مفت دوائیں بھی ملیں۔ حقیقتاً دولت مند طبقے کو اس کار خیر کی طرف متوجہ کرنا میڈیا علماء مصلحین اخلاق ‘ اساتذہ ‘ وکلاء جج صاحبان اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ سب مل کر متمول اور باحیثیت سرمایہ داروں‘ صنعت کاروں‘ جاگیرداروں اور بدعنوانیوں سے دولت اکٹھی کرنے والے سیاست دانوں پر دبائو ڈالیں۔ ان کے سوز دل کو جگائیں اور انہیں پابند بنائیں کہ غریب طبقے کے لئے محتاج خانے سے لے کر ان کے بنیادی حقوق کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے ذمہ داری یہی طبقے ہوں گے تو حکومت کا بوجھ بھی ہلکا ہو سکتا ہے۔ جو طبقے اس ذمہ داری کو از خود اٹھائیں حکومت انہیں ٹیکسوں پر چھوٹ دے۔ ان کے کاروبار اور تجارت کی درآمد و برآمد پر آسانیاں فراہم کرے۔ تو یہ ترغیب متمول کاروبار طبقے کو اس ذمہ داری طرف متوجہ کرنے میں معاون ہو گی۔ اصل میں حکومتوں کے پاس کرنے کے لئے اتنے کام ہوتے ہیں اور انہیں اتنے محاذوں پر چومکھی لڑنی پڑتی ہے کہ غربت و افلاس کا خاتمہ ان کی ترجیحات میں برائے نام ہی جگہ پاتی ہے۔ جس معاشرے میں ہم سب رہتے ہیں اسے بہتر اور اچھا اور خوبصورت بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔سوچنے کا یہ انداز کہ یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں اور ہمارا فریضہ صرف حکومت کی کارکردگی اور ناکارکردگی پر محض تنقید کرنا اور اس کے اچھے کاموں میں بھی کیڑے نکالنا ہے کوئی صحت مند اور تعمیری رویہ نہیں۔ ملک سب کا ہے اس کے دکھ سکھ سب کے ہیں۔ جب تک ہم اپنے ملک کو اپنا ملک صحیح معنوں میں نہیں سمجھیں گے اس کی خرابیوں اور برائیوں کی ذمہ داری حکومت یا اداروں کے سر تھوپنے کے بجائے اسنے اپنی ذمہ داری نہیں جانیں گے‘ کامل نجات کیسے ممکن ہے۔ کوئی بھی مسئلہ قومی نوعیت کا ہو۔ اس میں ہمیں اپنی ذمہ داری کا پہلو تلاش کرنا چاہیے کہ ہم اپنی سطح پر اس مسئلے میں کیا کارخیر کر سکتے ہیں یا نالائقی اور ناکارکردگی کا کوئی پہلو ہے تو اس میں یہ دیکھنا کہ میں اس صورت حال میں اپنی سطح پر کیا کچھ کر سکتا ہوں۔ وہ تو مجھے کرنا ہی چاہیے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل کا بوجھ کم یا ہلکا نہ ہو جائے۔ ساری بات اپنے رویے اور اپنے نقطہ نظر کے اصلاح کی ہے۔اکثر خرابیاں اس لئے بھی پیدا ہوتی ہیں کہ ہم کسی مسئلے کواپنی ذات اور مفادات سے الگ ہٹ کے یا اس سے بلند ہو کے نہیں دیکھتے اور نہ اسے اس طرح محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے قومی مسائل انبار در انبار جمع ہوتے جاتے ہیں چند برسوں کے لئے منتخب ہونے والی حکومت کے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے اور نہ اتنی توانائی کہ وہ جملہ مسائل سے نمٹ سکے۔ عام طور پر گمان کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ منتخب ہو کر آج والی حکومت کے پاس کوئی جادوئی چراغ یا جادوئی چھڑی ہو گی جسے گھماتے ہی سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور پھر راوی چین یہ چین لکھے گا۔ ظلمت شب کے شکوے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ ہر شخص اپنے حصے کی شمع جلائے۔ جس روز سوچنے اور محسوس کرنے کا یہ انداز اپنا لیا جائے۔ یہ ملک شاہراہ نجات یک طرف چل پڑے گا۔ منزل دور نہیں قریب ہی ہو گی۔