بک شیلف پر نگاہ دوڑائی تو کچھ نام اور کتابیں نظر آئیں۔ تم یاد آئے اور تمہارے ساتھ زمانے یاد آئے۔ بھولی بسری چند تصویریں اور فسانے یاد آئے۔ علی سفیان آفاقی کی فلمی الف لیلہ، اے حمید کی سماوار خوشبو، ابن انشاء کے کالم، مجید لاہوری کی تحریریں، ابراہیم جلیس کی قلم کاریاں، عبداللہ حسین کا اداس نسلیں ، ابن خلدون کا مقدمہ، خوشنونت سنگھ کی سیاہ یاسمین اور اصغر خان مرحوم کی جرنیل سیاست میں۔ کبھی کبھی نہیں اکثر میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ عام قاری … عام ناظرین سکرین پر اور پھر اخبار میں بھی، ہر چینل پر بھی وہی موضوعات، وہی چہرے، وہی باتیں، وہی تکرار، وہی انکار، وہی اپنی اپنی پارٹی سے بے حیا اور بے شرم وفاداری، وہی مریم اورنگ زیبیں، وہی شیری رحمانیں اور وہی فردوس عاشق اعوانیں۔ بہت سے رانا ثناء اللہ اور علی محمد بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ سب اٹھارہ کروڑ بے چہرہ شناختی کارڈوں کو کب تک بیوقوف بناتے رہے گے؟ یہ بے ثواب عذاب تو یونہی چلتا رہے گا۔ با ت کرتے ہیں اس عہد کی جب پاکستان کی فلم انڈسٹری عروج پر تھی۔ جب گلبرگ سے اداکار ملتان روڈ پر واقع شاہ نور، ایورنیو اور باری سٹوڈیو کی طرف جانے کے لیے نیو کیمپس کی نہر اور بیکھے وال موڑ سے گزرتے تو سٹوڈنٹس انہیں روک لیتے۔ کیمپس پل پر یونیورسٹی کے طالب علم اور بیکھے وال موڑ پر پائلٹ سکول اور سائنس کالج وحدت روڈ کے ذرا اوکھے طالب علم فلمی ستاروں کے انتظار میں رہتے۔ لوئر مڈل کلاس کے طالب علموں کے لیے یہی کافی ہوتا کہ فلم سٹارمحمد علی، وحید مراد، ندیم اور سدھیر کو قریب سے دیکھ لیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہاتھ ملالیا اور بات کرلی۔ مزید اوکھے طالب علم جمگھٹے بنا کر گاڑی روکتے اور ہلکا پھلکا ٹیکس بھی وصول کرلیتے۔ شاید انہیں انداز ہ ہوگا کہ جب ہم امیر ہوں گے تو ہم ٹیکس نہیں دیا کریں گے۔ اس وقت کئی کریزی لڑکے تفریحاً سکول اور کالج سے بھاگ کر سڑک پر کسی اجنبی سے لفٹ لیتے اور ملتان روڈ پر سٹوڈیوز کے سامنے ڈراپ ہوجاتے۔ اس رش کا حصہ بن جاتے جو سٹوڈیو کے باہر گیٹ پر ہوا کرتا تھا۔ اسی گیٹ سے ہر بڑا سٹار سٹوڈیو میں گاڑی سمیت داخل ہوتا تھا۔ وہاں کھڑے عوام الناس کو یہی آس اور لگن ہوتی تھی کہ سنتوش کمار، درپن، سدھیر، حبیب، اعجاز، فردوس، نغمہ، محمد علی، ندیم، زیبا بیگم، نشو اور بے شمار دیگر سٹارز میں سے جو بھی گزرے گا، کم از کم اس کی ایک جھلک دیکھی جاسکے گی۔ سٹوڈیوز کے اندر کی دنیا بالکل ہی ایک جادو کی دنیا تھی۔ میک اپ، غازہ، قہقہے، مسکراہٹیں، زیورات اور فیشن ایبل لباس سے آراستہ ایکٹرسیں۔ جذباتی مناظر، سٹارٹ سائونڈ، کیمرہ اور ایکشن کی مانوس آوازیں۔ ایسے بے شمار مناظر ہر سُو نگار خانوں میں بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے پہلو در پہلو آف سکرین بہت کچھ ہورہا ہوتا تھا۔ باری سٹوڈیوں میں زیادہ تر پنجابی فلمیں بنا کرتی تھیں اور ایورنیو میں زیادہ تر اُردو مگر یہ تقسیم حرف آخر نہ تھی۔ باری ملک نے باری سٹوڈیو اپنی ایک فلم ’’یکے والی‘‘ کی کامیابی سے حاصل ہونے والے پیسے سے بنائی تھی۔ شوکت حسین رضوی نے تقسیم کے بعد شاہ نور سٹوڈیو بنایا اور ایورنیو سٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل تھے۔ نگار خانوں کی رونقیں عروج پر تھیں۔ فلمی رسالوں میں تصور اور ممتاز نام کے میگزین بہت پاپولر تھے۔ ستر کی دھائی کے ابتدا میں گلبرگ سے سرور سکھیرا صاحب نے ایک فلم اور فیشن میگزین کی ابتدا کی۔ اس میں سیاست، فلم، معاشرت اور فیشن سبھی کی خبریں اور سیکنڈلز ہوتے تھے۔ یہ میگزین ٹرینڈ Setters بھی تھا، ٹرینڈ میکر بھی اور ٹرینڈ بریکر بھی۔ اس کی ٹیم نے پاکستانی صحافت کو بہت سے نام دیئے۔ جاوید اقبال کارٹونسٹ، تیکھے لکھاری حسن نثار صاحب، مستنصر جاوید، پرویز حمید، فوزیہ رفیق اور سرور سکھیرا صاحب اس کی کور ٹیم تھے۔ ان دنوں فلم انڈسٹری میں رات گئے پارٹیاں Throw کرنے کا بہت رواج تھا۔ انڈسٹری لالی ووڈ ہو، بالی ووڈ ہو یا کہ ہالی ووڈ۔ اس وقت پاکستان کی فلمی صنعت اچھا بزنس کررہی تھی۔ اردو اور پنجابی کے بڑے اداکاروں کا پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ منور ظریف، الیاس کاشمیری، آغا طالش اور مصطفی قریشی کے علاوہ بھی بہت نام ہیں۔ ہدایت کاروں میں جن کا طوطی بولتا تھا ان میں ڈبلیو زیڈ احمد، ایم جے رانا، شریف نیئر، پرویز ملک، علی سفیان آفاقی، شباب کیرانوی، مسعود پرویز، حسن طارق، اسلم ڈار، انور کمال پاشا، ریاض شاہد اور خلیل قیصر بڑے نام تھے۔ میوزک کی دنیا میں جو کمپوزرز جھنڈے گاڑ رہے تھے ان میں رشید عطرے، ماسٹر غلام حیدر، ماسٹر عنایت، خواجہ خورشید انور، جی اے چشتی، وزیر افضل، بخشی وزیر، ماسٹر عبداللہ، نثار بزمی، ناشاد، ایم اشرف اور روبن گھوش اپنی میٹھی دھنوں کی وجہ سے آ ج بھی زندہ ہیں۔ نغمے اور مکالمے ایسے لکھے جاتے تھے کہ ان میں سیاسی پنچ بھی ہوتا تھا اور سوشل منافقت پر طنز بھی۔ انور کمال پاشا کا ایک زمانے میں طوطی بولتا تھا۔ ان کی فلم کا ایک مکالمہ زبان زد عام ہوگیا ’’چوری میرا پیشہ ہے نماز میرا فرض ‘‘۔ یہ مکالمہ کیا تھا، سوسائٹی کے تضادات پر ایک طمانچہ تھا۔نغمے اور مکالمے اور کہانی لکھنے والوں میں بابا عالم سیاہ پوش، تنویر نقوی،حزیں قادری، قتیل شفائی، حبیب جالب، سیف الدین سیف، شیون رضوی، فیاض ہاشمی، عزیز میرٹھی، ابراہیم جلیس جیسے نام تھے۔ اس کے علاوہ ہر فلم نگری کی طرح اس میں بھی ان لکھی کہانیاں، سرگوشیاں، افسانے، معاشقے، سیکنڈلز، شادیاں، طلاقیں، گلیمر، کامیابیاں، ناکامیاں، رقابتیں، جدوجہد، عروج، زوال، وفا اور بے وفائیاں سبھی کچھ تھا۔ کون کیسے کامیابی کی سیڑھی پر چڑھا، عروج پر وہ کیسا تھا؟ زوال کے بعد اس کا کیا ہوا؟ اسے کس نے تباہ کیا؟ اس نے اچانک خود کشی کیوں کرلی؟ یہ باتیں ہر فلم نگری کا حصہ ہوتی ہیں۔ وہی فلمی دنیا جسے جادو نگری سمجھا جاتا ہے!!!