ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی گزشتہ روز 93 برس کی طویل اننگز کھیلنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ واجپائی 1996ء سے لے کر 2004ء تک تین بار بھارت کے پردھان منتری رہے۔ ان کے انتقال پر انہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور واجپائی سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں واجپائی کے لیے بہت احترام پایا جاتا تھا۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے واجپائی خوشگوار یادیں چھوڑ گئے ہیں۔ اگرچہ واجپائی کا تعلق بھارت کی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ سے تھا جسے عرف عام میں آر ایس ایس کہا جاتا ہے۔ بی جے پی اسی پارٹی کا سیاسی ونگ سمجھی جاتی ہے جس کے پلیٹ فارم سے واجپائی وزیراعظم منتخب ہوتے رہے۔ واجپائی تین بار پاکستان آئے تھے۔ ایک بار وہ 1978ء میں آئے اور جنرل ضیاء الحق سے ملے۔ دوسری بار وہ مشہور بس ڈپلومیسی دورے پر 1999ء میں لاہور آئے۔ اس دور میں میاں نوازشریف پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ تیسری بار واجپائی 2004ء میں سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے۔ واجپائی کے دورہ لاہور کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس دورے سے پہلے بھارت اور پاکستان دونوں علی الاعلان 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر چکے تھے۔ ایک ایٹمی پڑوسی ہونے کے ناتے اب دنیا پاکستان کو بھارت کے برابر درجہ دینے لگی تھی۔ اسی پس منظر میں واجپائی کے دورہ لاہور کا ساری دنیا میں خیر مقدم کیا گیا۔ اٹل بہاری واجپائی بہت اچھے مقرر اور شاعر تھے۔ ان کے خیالات چاہے اندر سے کتنے شدید ہی کیوں نہ ہوں مگر ان کا سافٹ امیج ان کی مرنجاں مرنج شخصیت میں نمایاں تھا۔ اپنے دورہ لاہور میں وہ دو قومی نظریہ کی علامت اور 1940ء کی ’’قرارداد پاکستان‘‘ کی یادگار مینار پاکستان بھی گئے جس کے بارے میں کہا گیا کہ آج بھارت نے تہہ دل سے پاکستان کو تسلیم کرلیا ہے۔ اسی دورے میں بھارت اور پاکستان کے مابین ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کا معاہدہ طے پایا اور دوطرفہ مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور مسئلہ کشمیر کو بھی مذاکرات ہی کے ذریعے حل کرنے کا عندیہ بھی واجپائی نے دیا۔ پاکستان کے حوالے سے واجپائی کی ایک نظم کو بہت شہرت ملی۔ ہندی زبان میں کہی گئی اس نظم میں اگرچہ امن و آشتی کی بات کی گئی ہے مگر اس میں طنز و طعنے کے تیروں سے بھی خوب کام لیا گیا ہے اور پاکستان کو، او نادان ہمسائے، جیسے القابات سے نوازا گیا۔ دورہ لاہور کے موقع پر واجپائی کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا وفد تھا۔ اس وفد میں ایکڑ دیو آنند، مصنف جاوید اختر اور کرکٹر کپل دیو جیسے لوگ تھے جو پاکستان میں اپنے اپنے حوالوں سے خوب پہچانے جاتے تھے۔ دورہ لاہور کے خوشگوار ماحول کے چند ماہ بعد کارگل کا واقعہ سامنے آ گیا جس کے بارے میں پاکستان اور ہندوستان کی طرف سے متضاد خبریں سامنے آئیں۔ تاہم ایک بار پھر آگرہ میں مذاکرات کی وہ ڈور 2001ء پھر جوڑ دی گئی جو واقعہ کارگل کے بعد ٹوٹ گئی تھی۔ اس دورے کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی کوششوں سے مسئلہ کشمیر کا ایک فوری حل تلاش کرلیا گیا تھا جو آگے چل کر مستقل حل اور حق خودارادیت کے لیے ایک ٹھوس اور جامع بنیاد فراہم کرسکتا تھا۔ یہ ایک چار نکاتی معاہدہ تھا، اس معاہدے کے چاروں نکات کچھ یوں تھے۔ ٭ پاکستان اور ہندوستان دونوں طرف کے کشمیری علاقوں سے دونوں ملک اپنی اپنی فوجیں واپس بلالیں گے۔ ٭لائن آف کنٹرول کو بارڈر تسلیم کر لیا جائے گا۔ ٭ بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر میں خود مختار حکومت آزادانہ انتخابات کے بعد قائم کردی جائے گی۔ ٭بھارت، پاکستان اور کشمیر کے نمائندگان پر مشتمل ایک سپروائزری کمیٹی قائم کردی جائے گی جو معاہدے کی عملداری کی نگرانی کرے گی۔ بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 کے مطابق 1950ء میں ایک صدارتی فرمان جاری کیا گیا تھا جسے 1952ء میں نافذ کیا گیا۔ اس صدارتی حکم کے مطابق وہاں شہریت صرف جموں و کشمیر کے مستقل باسیوں کو حاصل ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی آرٹیکل 35 اے بھی ساتھ دستور میں شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کے صرف مستقل رہائشی ہی غیرمنقولہ جائیداد خرید سکیں گے، کوئی باہر سے آ کر جائیداد نہیں خرید سکے گا۔ آج کل اسی آرٹیکل 35 اے کو بدلنے کی باتیں سامنے آ ر ہی ہیں۔بہرحال صدر پرویز مشرف کے زمانے میں 2002ء سے لے کر 2007ء تک وزیر خارجہ رہنے والے خورشید محمود قصوری نے جدہ میں ایک ملاقات کے دوران اور بعدازاں انہوں نے اپنی خودنوشت میں بھی لکھا ہے کہ فریقین کے مابین معاہدہ طے پا چکا تھا مگر پھر بوجوہ اس پر دستخط نہ ہو سکے۔ بعد میں کھوج لگانے والوں نے معاہدے کے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے کی دو وجوہات بیان کیں۔ ایک تو یہ کہا جاتا ہے کہ واجپائی تو دستخط کرنے پر تیار تھے مگر بھارتی کابینہ نے معاہدے کی توثیق کرنے سے انکار کردیا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ ایک رضاکارانہ ہندو انتہا پسند تنظیم ہے۔ اس نیم عسکری تنظیم کے ممبران کی وردی پہلے خاکی قمیض اور خاکی نیکر تھی اورپھر قمیض خاکی کی جگہ سفید ہو گئی۔بھارت کے سیکولر دستور میں تمام اقلیتوں کو ایک شہری ہونے کی حیثیت سے برابر کے حقوق حاصل ہیں مگر راشٹریہ سیوک سنگھ انگریزوں اور تمام اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے شدید خلاف ہے اور انہیں بھارتی زمین پر غیر ہندو کی حیثیت سے جینے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ آر ایس ایس پر ایک بار برطانوی دور میں اور تین بار آزادی کے بعد پابندی لگ چکی ہے۔ پہلی بار جب اس تنظیم کے ایک رکن نے بھارت کی سب سے زیادہ واجب الاحترام شخصیت گاندھی جی کو قتل کردیا تو 1948ء میں اس پر پابندی لگی۔ پھر 1975ء سے 1977ء تک اور پھر 1992ء میں جب بابری مسجد کو اس تنظیم کے انتہا پسندوں نے گرا دیا تو اس پر پابندی عائد کی گئی۔ بھارتی جنتا پارٹی 1980ء میں قائم ہوئی تھی جو اسی آر ایس ایس کا سیاسی ونگ سمجھی جاتی ہے۔ 15 اگست بھارتی یوم آزادی کے موقع پر ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے اہل کشمیر کو خوش آمدید کہا اور ان کے بارے میں خوشگوار لب و لہجہ اختیار کیا۔ گزشتہ برس بھی اسی یوم آزادی کے موقع پر مودی نے اہل کشمیر کوگولی اور گالی کی سیاست ترک کرنے اور باہم مذاکرات کرنے کی دعوت دی تھی مگر عملاً اس کے برعکس ہوا۔ اس ایک سال کے دوران بھارتی فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کی درندگی اپنی انتہا کو پہنچی۔ سینکڑوں نوجوانوں کو شہید کردیا گیا۔ پیلٹ گنوں سے درجنوں کو اندھا کردیا گیا۔ گزشتہ پچیس تیس برس کے دوران تقریباً ایک لاکھ سے اوپر کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ ہزاروں بغیر مقدمات کے جیلوں میں پڑے ہیں۔ کروڑوں کی مسلم پراپرٹی نذر آتش کر دی گئی ہے۔ اس بار نریندر سنگھ مودی نے واجپائی کے انتقال سے ایک روز پہلے اینے یوم آزادی کے موقع پر اہل کشمیر کو واجپائی کی تعلیمات کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی دعوت دی۔ مودی نے کہا کہ واجپائی کا سلوگن تین لفظی تھا۔ انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت۔ یہ بات مختلف شخصیات کے ذریعے منظر عام پر آتی رہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا کہ پھر کچھ ناگہانی ہوگیا یا بوجوہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ گزشتہ دنوں عمران خان نے کہا تھا کہ میری پارٹی میں تین سابق وزرائے اعظم ہیں، ان تینوں کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کامیاب بھی ہوئے۔ نتیجہ خیز بھی ہوئے مگر عملی شکل میں معاہدہ سامنے نہ آ سکا۔ پاکستان کی اکہتر سالہ تاریخ میں پاکستانی حکمران سول ہوں یا عسکری تقریباً ہر کوئی بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اور امن کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہا۔ ایوب خان، جواہر لال نہرو کے ساتھ، ذوالفقار علی بھٹو اندرا گاندھی کے ساتھ، راجیو گاندھی بینظیر بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھ، من موہن سنگھ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اور میاں نوازشریف واجپائی اور مودی کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ نریندر سنگھ مودی اگر واقعی مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اس مسئلے کے دو نہیں تین فریق ہیں۔کشمیر، پاکستان اور بھارت۔ مودی، واجپائی کی خواہش کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرکے ان کی آتما کو سکون پہنچا سکتے ہیں۔