وفاقی حکومت نے رواں مالی سال 6ریاستی اداروں کی نجکاری مکمل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری اداروں کے 27اثاثوں کی مارچ اپریل میں نجکاری کی جائے گی۔ تحریک انصاف کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اقتدار میں آنے سے قبل معاشی اصلاحات کے متعلق ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت سرکاری شعبے میں کام کرنے والی دو سو کمپنیوں کی نجکاری کرے گی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد نجکاری پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اکتوبر 2019ء یعنی اقتدار سنبھالنے کے ایک برس بعد حکومت نے 6اداروں کی نجکاری کی منظوری دی۔ ان میں گدو پاور پلانٹ بھی شامل تھا۔ حالانکہ اس پاور پلانٹ کی نجکاری میں حکومت کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ تھا لیکن اس کے باوجود نجکاری کے عمل کو انتہائی سست رکھا گیا‘ جس کے باعث ایک طرف ہم آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور ہوئے تو دوسری جانب ان اداروں کا مالی خسارہ بھی بوجھ بنتا گیا۔ خسارے میں جانے والے اداروں کی نجکاری کوئی نیا عمل نہیں ہے بلکہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں خسارے میں جانے والے اداروں کی نجکاری شروع کی گئی۔ اس کے بعد میاں نواز شریف نے بھی اپنے ادوار میں نجکاری کا عمل جاری رکھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نجکاری کے عمل میں ہونے والی بدانتظامی اور بدعنوانی نے عوامی اعتماد کو مجروح کیا۔ عوامی سطح پر یہ تاثر بھی سامنے آیا کہ حکومتی صفوں میں موجود بعض سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران نے بیش قیمت عوامی اثاثوں کو کوڑیوں کے بھائو فروخت کیا۔ اس تاثر کی بنا پر ہی پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب پاکستان سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تو سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) نے کھل کر مخالفت کی۔ جس کے بعد یہ عمل جاری نہ رہ سکا۔ نجکاری پروگرام کے حوالے سے ایک تاثر یہ بھی دیا جاتا ہے کہ اس رقم سے بیرونی قرض ادا کر کے ان سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے جب قرض دیتے ہیں تو اس میں سود شامل ہوتا ہے۔ جنہیں قومی اثاثے بیچ کر ادا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔1991ء سے لے کر اب تک کئی بڑی صنعتوں‘ بینکوں اور اداروں کی نجکاری کی جا چکی ہے۔ لیکن بیرونی قرض کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ مشرف دور میں پی ٹی سی ایل کے 26فیصد شیئر دبئی کی کمپنی اتصالات کو 2005ء میں فروخت کئے گئے لیکن 19برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم اس کمپنی سے 80کروڑ ڈالربقیہ رقم نہیں لے سکے اگر اب بھی ایسی ہی نجکاری کرنی ہے تو پھر اس کا ملک و قوم کو کیا فائدہ ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان ملک میں کرپٹ سیاستدانوں سے پیسہ نکلوانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ پی ٹی سی ایل کے بقایا جات کے لئے بھی عرب کمپنی سے بات کریں تاکہ 80کروڑ ڈالر ملک میں آ سکیں‘ اس سے نہ صرف ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا بلکہ معیشت بھی مستحکم ہو گی۔ 1993ء میں بجلی کے شعبے میں نجکاری اور نجی سرمایہ کاری کا آغاز کیا گیا۔ تب سے لے کر آج ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں بجلی کا بحران زیادہ ہوا ہے۔ نیپرا ہر مہینے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافہ کر کے صارفین پر اربوں روپے کا بوجھ ڈالتا ہے۔ اب تک حکومت کھربوں روپے سرکلر ڈیٹ کی صورت میں نجی پاور کمپنیوں کو ادا کر چکی ہے۔ اس رقم کواگر نئے ہائیڈل پاور پراجیکٹ بنانے میں استعمال کیا جاتا تو آج نہ صرف ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پا لیا جاتا بلکہ بجلی سستی بھی ہوتی۔ کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد کراچی میں بجلی سپلائی کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ کے الیکٹرک کو اگر کمپنی بہتر انداز میں نہیں چلا سکتی تو پھر اس کی نجکاری میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ شنگھائی الیکٹرک پہلے ہی اس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہے۔ اسے موقع دینا چاہیے۔ نجکاری کے حامی اور مخالف حلقوں کی مختلف آرا ہیں۔ نجکاری کے حامی کہتے ہیں کہ نجی کمپنیاں جب سرکاری اداروں کو تحویل میں لیتی ہیں تو منافع کی غرض سے نتیجہ خیز پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں۔ جس کی بنا پر ادارے منافع بخش ہو جاتے ہیں جبکہ نجکاری مخالفین کہتے ہیں کہ افسر شاہی خود کام نہیں کرتی۔ اداروں کی تباہی کی یہ ذمہ دار ہے ‘اگر افسران بالا دلجمعی سے کام کریں تو مردہ تن میں بھی جان ڈالی جا سکتی ہے۔ اس لئے حکومت نجکاری کی بجائے اداروں کو ٹھیک کرے تو یہ مناسب ہے۔ کیونکہ ماضی میں جب بھی قومی اداروں کی نجکاری کی گئی تو بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ پاکستان کی صورتحال کا ادراک رکھنے والے کہتے ہیں کہ بنیادی ضرورت کے دائرے میں آنے والے شعبوں کی نجکاری اگر ضروری ہو تو انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اصول پر چلایا جائے ‘تو اس سے ریاست اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرنے میں کسی نہ کسی طرح اپنا کردار شامل رکھتی ہے۔ اس لئے حکومت ان اداروں میں موجود ملازمین کے مفادات کا خیال رکھے ۔پی ٹی آئی حکومت نجکاری کرنے جا رہی ہے تو وہ اپنے وزراء اور ایماندار سرکاری افسران کی زیر نگرانی یہ سلسلہ شروع کرے تاکہ کمشن اور کک بیکس کے لالچ میں ملک کو نقصان نہ ہو۔ وزیر اعظم عمران خان اس سلسلے میں صادق و امین افراد کا انتخاب کریں تاکہ نجکاری پر کسی قسم کی انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔