کوئی انیس برس ادھر کی بات ہے کہ ملک پر دوسری نواز حکومت کے منحوس سائے کی چادر تنی ہوئی تھی۔ اینکرز تو اس زمانے میں ہوا نہیں کرتے تھے، بس کالم نگاروں کی دعائیں کام آئیں اور یہ منحوس دور ختم ہوا۔ نحوست کا نوازی دور ختم ہوتے ہی برکتوں اور رحمتوں کا ایسا دور آیا کہ شہادت کی موت گلی گلی بٹنے لگی۔ بچے، بوڑھے ، جوان اور مرد و زن کی تفریق کے بغیر شہادت کی فخریہ موت سب کے نصیب میں آتی گئی۔ چونکہ شہدا کی تعداد بہت زیادہ رہتی اس لئے ہر شہید کے لواحقین کو ٹی وی چینلز پر آ کر اپنے شہید پر اظہار فخر کا موقع ملنا ممکن نہ تھا مگر پھر بھی ہمارے میڈیا نے اپنی بساط کے مطابق بڑی حد تک یہ فخریہ بیانات دن رات پیش کئے۔ قوم کا جذبہ ساتویں آسمان پر تھا اور مسرت و شادمانی کے ایسے ایسے مناظر تھے جنہیں دیکھنے کے لئے عالمی طاقتوں کے بڑے بڑے ڈیلی گیشن بھی ہر ہفتے پاکستان آتے۔ کبھی امریکی وزیر خارجہ آتا تو کبھی برطانوی وزیر دفاع۔ کبھی جرمن فوج کا سربراہ آتا تو کبھی فرانسیسی نیوی کا وار ایڈمرل۔ کبھی یورپی یونین کا وفد آتا تو کبھی نیٹو کا ہائی لیول ڈیلی گیشن۔ یہ سمجھدار اقوام کے نمائندے تھے سو سمجھداری کے ہی مشورے دیتے کہ اس خیر و برکت والے دور کو ہاتھ سے جانے نہ دینا۔ اس ضمن میں امریکیوں کا اخلاص تو بھلائے نہیں بھولتا جو خیر و برکت کے اس دور کے دوام کی خاطر روز ’’ڈو مور !‘‘ کی تکرار کرتے۔ ہم نے ڈو مور پر عمل شروع کیا تو برکتیں بے قابو ہوگئیں۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں اتنی فراوانی ہوگئی کہ ہر دوسرا شخص کار خریدنے لگا۔ کاروں کی اسی برکت کے نتیجے میں ایک دن عالمی خلائی سٹیشن پر کھلبلی مچ گئی۔ امریکی خلا بازوں نے ناسا کو ہنگامی پیغام بھیجا کہ آج تک خلاء سے ہم صرف دیوار چین کا ہی نظارہ کرپاتے تھے لیکن اب چین کے عین پڑوس میں کچھ اور بھی نظر آنے لگا ہے جو طوالت میں تو دیوار چین سے کچھ کم ہی ہے مگر تعداد میں زیادہ ہے۔ وہ جو ریمنڈ ڈیوس نامی ایک گورا ہمارے ہاں آیا تھا وہ ناسا کی اسی رپورٹ پر بس یہ دیکھنے دوڑا آیا تھا کہ راتوں رات پاکستان میں ایسی کیا طویل چیزیں بن گئیں جو خلاء سے بھی نظر آرہی ہے۔ سی این جی سٹیشنز کے سامنے لگی گاڑیوں کی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں دیکھ کر ریمنڈ ڈیوس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ایک ترقی پذیر ملک میں گاڑیوں کی برکت سے سی این جی کی کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر وہ حسد میں مبتلا ہوگیا اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ حسد کا انجام برا ہوتا ہے۔ قوت خرید بڑھنے سے صرف گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہر گھر میں خواتین کے مابین طرح طرح کے پکوان بنانے کا مقابلہ بھی شروع ہوگیا۔ گھر کی ایک بہو کو قورمے پر داد ملتی تو دوسری اسی وقت بریانی سے معدے فتح کرنے کے لئے آستین چڑھا دیتی۔ نتیجہ یہ کہ ایک روز حاجی عبدالغفور امرتسری رات کو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھر ؛میں بہویں تو اب بھی دو ہی ہیں مگر ٹیبل پر ڈش بس ایک ہی دھری ہے ۔ حاجی صاحب کو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا کہ خیر و برکت کے اس دور میں کسی مومن کی ڈائننگ ٹیبل پر صرف ایک ہی ڈش بھی ہوسکتی ہے۔ وہ صدمے اور تحیر کے ملاپ سے وجود میں آنے والی کیفیت سے ابھرتے ہوئے بولے ’’بس ایک ہی ڈش ؟ کیا عمر ابن عبدالعزیز ثانی کا دور حکومت تمام ہو گیا ؟‘‘ حاجی صاحب کی بیگم بولیں ’’حاجی جانو ! کیا کریں گیس کی لوڈ شیڈنگ جو شروع ہوگئی ہے !ـ‘‘ صاحبو ! گیس کی یہ لوڈ شیڈنگ شروع ہی پکوانوں میں برکت کے سبب ہوئی تھی۔ کچھ یہی معاملہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا بھی تھا۔ فی کس آمدنی بڑھنے سے ہر شخص اپنے گھر میں اے سی لگوانے لگا۔ ایئرکنڈیشنز کی ڈیمانڈ تو اتنی بڑھ گئی کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے چائنا کو میدان میں اتر ناپڑا۔ مانا کہ اس کے نتیجے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے تک جا پہنچا مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ اس سے نئے کار وبار وجود میں آئے جو ملکی معیشت میں گرانقدر اضافہ تھا۔ مثلا یو پی ایس کی مارکیٹ وجود میں آگئی ، سولر پینل کا کارو بار شروع ہو ا جو دن دوگنی رات چگنی ترقی کرنے لگا۔ لوگوں میں ذکر و اذکار کا ذوق پیدا ہوا کہ بجلی جاتی تو اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھتے اور بجلی آتی تو کامل اخلاص کے ساتھ الحمدللہ پکار اٹھتے۔ جنرل مشرف اور آصف زرداری کے اس بابرکت دور کا احاطہ ایک کالم کے بس میں کہاں ؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ کچھ اشارے ہی دئے ہیں۔ غضب یہ ہوا کہ جس طرح برے وقت کے بعد اچھا وقت آتا ہے اسی طرح اچھے وقت کے بعد بھی برا وقت آتا ہے۔ مشرف اور زرداری کے یاد گار اچھے دور کے بعد ایک بار پھر نواز شریف کا بدترین دور آگیا۔ اس منحوس دور میں شہادت جیسی مطلوب موت کم ہوتے ہوتے ناپید ہی ہوگئی۔ اب لوگ گھر یا ہسپتال میں طبعی موت مرتے ہیں۔ بڑا تیر ماریں تو ٹریفک حادثے میں مر لیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو سروے کروا کر دیکھ لیجئے کہ نواز شریف کے تیسرے منحوس دور میں طبعی موت کی شرح میں اضافہ ہوا یا نہیں ؟ صرف اسی پر کہاں بس ! کیا اس منحوس دور کے آخری تین سالوں میں آپ نے سی این جی سٹیشنز کے سامنے گاڑیوں کی وہ طویل طویل قطاریں دیکھیں ؟ جب سفر میں برکت ہی ختم ہوگئی تو کوئی سی این جی ڈلوا کر کرے گا کیا؟ عقل کے اندھے پٹواری کہتے ہیں گھروں میں بھی اب گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔ ارے بھئی ! قوم پیاز اور اچار سے روٹی کھائے گی تو کیسے ہوگی گیس کی لوڈ شیڈنگ ؟ لیکن صد شکر کہ پہلے اور دوسرے کی طرح نواز شریف کا یہ تیسرا بدترین دور بھی تمام ہوا۔ اس منحوس دور کے خاتمے کا نتیجہ دیکھئے کہ جو چار رمضان نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں آئے ان میں سحر و افطار کے وقت بجلی اور گیس دونوں کی لوڈ شیڈنگ کا شور و غل رہا۔ لیکن آج جب نواز شریف کی منحوس حکومت نہیں ہے تو بارہ روزے گزر گئے مگرآپ نے کہیں سے بجلی یا گیس کی لوڈ شیڈنگ کا واویلا سنا ؟ نہیں سنا ! کیونکہ نحوست کے جاتے ہی آسمان سے بجلیاں نازل اور زمین سے گیسز کے خزانے ابلنے شروع ہوگئے۔ سب کہئے سبحان اللہ !