نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کے حلف اٹھانے سے دنیا ایک غیر یقینی پن سے نجات حاصل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ صدر بائیڈن کے حلف اٹھانے سے پہلے ان کے نامزد سیکرٹری آف سٹیٹ نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات حسب سابق جاری رکھنے کی بات کی ہے۔انہوں نے امریکہ کی ریاستی پالیسیوں کے تسلسل کی بات کی تاہم جن امور سے امریکہ کا داخلی انتشار بڑھا ان پر نظر ثانی کا عندیہ دیا۔ اسلام دشمنی‘ پاکستان دشمنی اور نسلی امتیاز کے حامی ڈونلڈ ٹرمپ نے بوقت رخصت کہا کہ انہیں فخر ہے کہ کئی عشروں میں پہلا امریکی صدر ہوں جس نے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی۔ امریکہ کی جمہوری روایات کا یہ نمایاں حصہ ہے کہ رخصت ہونے والا صدر نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوتا ہے‘ وائٹ ہاوس خالی کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت پر عمل نہیں کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ غیر متوقع طور پر ہیلری کلنٹن جیسی مضبوط صدارتی امیدوار کو شکست دے کر سپر پاور امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کا پورا دور تنازعات سے بھرا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر پناہ گزینوں کو روکنے کے لئے سینکڑوں کلو میٹر تک باڑ لگانے کا حکم دیا‘ دنیا کے کئی ملکوں سے امریکی شہریت کے خواہشمندوں کو انکار کیا گیا‘ اسرائیل کے لئے انتہائی نرم گوشہ رکھا گیا‘ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا متنازع فیصلہ کیا‘ صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دیا‘ سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک پر دبائو ڈالا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کریں‘ صدر ٹرمپ کے دور اقتدار میں ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا جس کے اثرات پاکستان اور جنوبی و مغربی ایشیا میں دیکھے گئے۔ پاکستان کو صدر ٹرمپ نے ابتدائی دنوں نظر انداز کیا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی قیادت سے ان کے تعلقات جلد باہمی اعتماد کی سطح پر پہنچے۔ بجا طور پر یہ افغانستان سے امریکی انخلا کا فیصلہ تھا جس پر عملدرآمد کے لئے ٹرمپ کو پاکستان کی مدد درکار تھی۔ٹرمپ انتظامیہ نے کوشش کی کہ اس رابطے سے دیگر دو طرفہ معاملات پر پاکستان کو فوائد حاصل کرنے سے روکا جائے۔ صدر ٹرمپ سے وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات یادگار رہی۔ اس ملاقات میں ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں تنازع کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی ہے۔ اس درخواست کا نتیجہ پاکستان یا اہل کشمیر کے حق میں مثبت انداز میں سامنے نہ آ سکا‘ بھارت کی انتہا پسند حکومت نے الٹا کشمیر کی آئینی حیثیت بدل کر حالات مزید دگرگوں کر دیے لیکن بھارت کے تاریخی موقف ،کہ کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ تنازعات دو طرفہ بات چیت سے ہی طے ہوں گے ، میں ایک شگاف ضرور پڑ گیا۔صدر جو بائیڈن چالیس برس سے امریکی سیاست کا اہم کردار ہیں۔ وہ بطور نائب صدر پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ بائیڈن کی جماعت دنیا بھر میں جمہوری اور انسانی اقدار کا احترام کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ ری پبلیکنز عام طور پر جنگیں کرتے ہیں جبکہ ڈیمو کریٹس مکالمے اور بات چیت سے تنازعات طے کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ تازہ تاریخ میں صدر اوبامہ کے عہد میں پی فائیو پلسن ون اور ایران کے درمیان طے پانے والا ایٹمی معاہدہ اس کی مثال ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے 2018ء میں یہ کہہ کر کولیشن سپورٹ فنڈز روک لئے کہ پاکستان کرتا کچھ نہیں بیٹھے بٹھائے پیسے لیتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حتمی مرحلے پر پاکستان کو اپنے اداروں اور متاثرہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لئے اس فنڈ کی اشد ضرورت تھی لیکن اربوں ڈالر کی رقوم روک لی گئیں۔ ٹرمپ نے دوسرا کام یہ کیا کہ انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن ٹریننگ پروگرام (IMET) کے تحت پاکستان کے فوجی افسروں کو امریکہ کے دفاعی اداروں میں تربیت کی جو سہولت عشروں سے حاصل تھی اسے منسوخ کر دیا گیا۔ امریکہ کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ فوجی افسروں کو تربیت کا یہ پروگرام امریکہ کو طویل المدتی رابطوں کا ذریعہ رہا ہے اسے بند کر کے ٹرمپ نے امریکہ اور پاکستان کے دفاعی رابطے کمزور نہیں کئے بلکہ امریکہ کو سٹرٹیجک فوائد سے محروم کر دیا۔ یہ صدر ٹرمپ کا دور اقتدار ہی ہے جس میں پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکائی گئی۔ پاکستان شدید معاشی اور مالیاتی مشکلات کے باعث کئی شرائط پر عمل کرنے کے لائق نہیں تھا لیکن بین الاقوامی پابندیوں کے خطرے نے اسے ناقابل قبول فیصلوں پر بھی مجبور کیا۔ پاکستان نے متعدد بار واضح کیا کہ بھارت کے ایما پر ایف اے ٹی ایف پاکستان کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن اس شکایت پر امریکہ اور دوسرے اہم ممالک نے کان نہ دھرا حالانکہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے انسداد کے لئے لائق تحسین اقدامات کئے۔ جوبائیڈن ایک سنجیدہ شناخت رکھتے ہیں۔ عالمی معاملات میں وہ پاکستان کے موقف سے آگاہ ہیں۔ پاکستان نے افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے امریکہ کی جو مدد کی ہے یقینا وہ تقاضا کرتی ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ اور فوجی تربیت کے پروگرام کو بحال کیا جائے۔ پاکستان کشمیر کا تنازع پرامن طریقے سے حل کرنے کا خواہشمند ہے۔ پاکستان چین تعلقات دفاعی سے زیادہ معاشی تعاون پر مبنی ہیں۔ سی پیک منصوبہ مکمل طور پر بروئے کار آتا ہے تو اس کا فائدہ بھارت اور امریکہ سمیت ہر ملک کو ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ میں جوبائیڈن کا حلف اٹھانا پاکستان اور خطے کے حوالے سے امید افزا واقعہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔