صرف کشمیر کا مسئلہ ہی زندہ نہیں ہوا‘ اس کے ساتھ بعض بنیادی اصولی سوال بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کا یوں تو مجھے کئی دن سے خیال تھا کہ کہیں ہمارا تہذیبی پیراذئم شفٹ تو نہیں ہو رہا‘ تاہم ان دنوں اس خیال میں شدت آ گئی ہے۔ مثال کے طور پر اوریا مقبول جان نے یہ کہہ کر بنیادی سوال اٹھا دیا ہے کہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ جہاد اس وقت فرض ہوتا جب ریاست اس کا باضابطہ اعلان کرے تو اب ہمارے وزیر اعظم نے جہاد کا اعلان کر دیا ہے‘ اس لئے میدان میں نکلنے کے لئے تیار ہو جائیے‘ آخر اب کیا امر مانع ہے۔ دراصل میرے بھائی کی یہ للکار ان لوگوں کے لئے ہے جو جہاد ہی سے انکار کرتے ہیں اور کھلے عام دہشت گردی کو جہاد کے مترادف بنا کر پیش کرتے ہیں۔ درمیان میں وہ مسلمان مفکرین کے درمیان چلنے والی اس بحث کو بھی لے آتے ہیں کہ جہاں اسلامی حکومت قائم ہو وہاں ریاست کی مرضی کے بغیر لشکر یا جتھے بنا کر از خود راہ جہاد پر نکل جانا درست نہیں ہے۔ یہ ہے بڑی بنیادی بات۔ مگر اس کے ساتھ بہت سے سوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ میرا مسئلہ یہ رہا ہے کہ استاد نے مجھے یہ بتا رکھا ہے کہ اصل بات سوال اٹھانا ہے‘ یہی مشکل مرحلہ ہے جو اب تو اس کا کچھ بھی دیا جا سکتا ہے۔ دو چار روز پہلے البتہ میں نے ایک قول نقل کیا ہے کہ اصل جواب وہ ہوتا ہے جو سوال کا تیا پانچہ کر دے‘ اسے نیست و نابود کردے۔ ملیا میٹ کر دے۔ مطلب یہ ہوا کہ بڑے سوال بڑے جوابات کا تقاضا کرتے ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ کہیں اس مشقت سے بچنے کے لئے بس سوال کی عظمت پر زور دے کر جواب سے کنی تو کترا نہیں جاتا۔ خاص طور پر جن بڑے بڑے سوالات کا آج سامنا ہے وہ تاریخ کے بڑے نازک مرحلے پر قوموں کو پیش آیا کرتے ہیں۔ تو کیا ہم اس مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ وہ مرحلہ جو بعض لوگوں کی نظر میں پیراڈائم شفٹ ہوا کرتا ہے۔ ان دو لفظوں کو انگریزی ہی میں رہنے دیں۔ میں یہاں ایسے ہی دو چار سوالوں کا ذکر کرتا ہوں جو سوچنے سمجھنے والے ذہنوں میں کھلبلی مچائے ہوئے ہیں۔ آج سے نہیں‘ گزشتہ دو ایک سال سے۔ مثال کے طور پر ہمارے ایک بہت بڑے دانشور جن کی اسلام دوستی پر مجھے شک ہے نہ حب الوطنی پر۔اور ان کی پوری زندگی بڑے سائنسی انداز سے حالات کا مطالعہ کرتے گزری ہے‘ اہل دانش کے سامنے ایک سوال بڑے درد کے ساتھ رکھ رہے ہیں۔ وہ بڑے فصیح و بلیغ شخص ہیں‘ articulate کہہ لیجیے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ گزشتہ نصف صدی سے کم از کم جو پاکستان کا بیانیہ رہا ہے‘ کیا وہ آج بھی اپنے معنی رکھتا ہے۔ وہ یہ بات جس طرح رکتے رکتے کہتے ہیں‘ میں بھی اسے اسی طرح ادا کر رہا ہوں‘ ہم کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد ایک نظریہ پر ہے جسے نظریہ پاکستان کہہ لیجیے۔ اس ریاست کے قیام کا ایک مقصد ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اسلامی ریاست کا قیام‘ بعض لوگ اسے مسلم قومیت کا اظہار کہتے ہیں۔ تاہم اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک ایسی ریاست ہے جو ہماری ثقافتی روح کے شایان شان ہو۔ یہ نہیں کہ اس نظریے کے مخالف نہیں تھے۔ یقینا تھے‘ مگر پھر بھی اس بیانئے میں وزن محسوس ہوتا تھا۔ پورا دایاں بازو تھوڑے بہت اختلافات کے ساتھ اسی نظریے کے ساتھ تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ جو پارٹیاں الٹ نظریہ رکھتی تھیں‘ وہ بھی خود کو اس نظریے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ بھٹو صاحب کی مثال لے لیجیے۔ انہوں نے سوشلزم کا نام لیا تو اصرار کر کے بتانا پڑا کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ قادیانیت پر پابندی لگانا پڑی اور آخری دنوں میں جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی کا اعلان کرنا پڑا۔ کیونکہ جمہور کا یہی رجحان تھا۔ ہمارے دانشور دوست جن کا میں نام نہیں لکھ رہا اس لئے کہ انہوں نے یہ بات بلند کلامی کے طور پر کہی تھی اور ایک محدود محفل میں کہی تھی۔ پھر میں نے ان سے نام بتانے کی اجازت بھی نہیں لے رکھی اور کھل کر ان سے گفتگو بھی نہیں ہوئی کہ بات کو پوری طرح سمجھ سکوں۔ یوں سمجھئے کہ وہ اتنے مستند ہیں کہ میں انہیں اس معاملے میں اپنے سے بالاتر سمجھتا ہوں ‘میں اس دن سے اس سوال پر غور کر رہا ہوں۔ اس بیانئے کا نتیجہ یہ تھا کہ ہمارے ہاں وہ مذہبی فکر غالب تھی جو سمجھتے ہیں کہ اسلامی اصولوں پر حکومت قائم کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اس پر سوالات اٹھتے رہے۔ اب یہ بیانیہ بڑے زور و شورسے سامنے آنے لگا کہ ایسا نہیں ہے۔ دین اس لئے نہیں آیا کہ نظام حکومت وضع کرے۔ ہمارے ایک معتبر مذہبی سکالر نے تو یہ کہہ کر غالباً چھکا مارا ہے کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہی نہیں ہے۔ خلاصہ اس بحث کا یہ نکلتا ہے کہ حکومت کا قیام کسی بھی قوم کی دینی ذمہ داری نہیں ہے‘ اسے عوام کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ان کے اس رویے کا ایک فائدہ البتہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح وہ جمہوریت کے قاتل ہو جاتے ہیں‘ خلافت نہیں‘ جمہوریت عوام کی رائے‘ نقصان یہ ہوتا کہ دین کے لئے کام کرنے کا جذبہ مفقود ہوتا جاتا ہے۔ دین صرف عبادات اور اخلاقیات وغیرہ کا مجموعہ رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی برا نہ مانے تو میں یہ عرض کروں ‘ صرف پوجا پاٹ تک محدود ہو جاتا ہے۔ چلئے اس تک نہ جائیے کہ کوئی سیاسی نظام‘ اقتصادی نظام یا سماجی نظام دین کا مطمع نظر ہے‘ مگر ہم تو وہاں سے بھی آگے چلے جاتے ہیں اور اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں ‘جسے اقبال نے روحانی جمہوریت کہا تھا۔ وہ پوچھتے ہیں وہ کیا ہوتی ہے۔ بس جمہوریت ‘ نہ اس سے کچھ زیادہ نہ کم۔ مارشل لائوں کی ماری اس قوم کو یہ بات بھی اچھی لگتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ کچھ بلائیں اور بھی ہیں۔ سرمایہ داری نظام‘ سیکولرازم ‘ لبرل ازم وغیرہ۔ ایک بات دوسری سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم نے 68ء میں جب سوشلزم کی مخالفت شروع کی تو اسے بے دین کمیونزم کا حصہ سمجھا اور دوسرے یہ کہ کمیونزم کے مقابلے میں سرمایہ داری ہمیں اچھی لگتی تھی آج جمہوریت کا حصہ ہے۔ یہی مثال سیکولرازم کا ہے۔ سیکولرازم کے حامی آج کل خاصے فارم میں ہیں کہتے ہیں اب آپ کو ہندوتوا کے مقابلے میں سیکولرازم اچھی لگتی ہے نا! روز طعنہ دیتے ہو‘ کہاں گئی بھارت کی سیکولرازم۔ کل تک تم اسے بے دینی کے معنوں میں استعمال کرتے تھے اب بتائو بھارت میں کیا چاہیے ہندو توا یا سیکولرازم؟ سوال بہت اچھا ہے اس کا جواب میں دیتا رہتا ہوں۔ اس وقت صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ دنیا میں سیکولرازم کے جتنے ماڈل ہیں‘ گزشتہ دنوں میں نے چھ گنوائے تھے ان میں بھارت کی سیکولرازم سب سے زیادہ منافقانہ رہی ہے۔ ہمارا واسطہ اسی سیکولرازم سے پڑا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیںجو اعلان تو کرتے ہیں کہ ہم سیکولرازم پر ایمان لائے۔ مگر اندر اندر سے رام راج جپتے ہیں۔ بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا تہذیبی مزاج گاندھی اور تیگور کا پروردہ ہے۔ سیکولرازم خود ایک مذہب بن کر رہ گیا تھا۔ جو سیکولر نہیں ہے وہ قابل گردن زدنی ہے۔ کل رات میں اشیش نندہ کو پڑھ رہا تھا۔ ایک بھارتی دانشور جو قومی ریاستوں کے تصور کا بھی ناقد ہے اور سیکولرازم کے اس مذہب کا بھی جس کا میں تذکرہ کر رہا ہوں۔ ہندو تا سے تو خیر اس کا دورتک واسطہ نہیں۔ ہم سنجیدہ بحث سے ڈرتے ہیں کہ بیچ میں اچکے کود پڑتے ہیں۔ یہی صورت حال اس سیکولرازم کی بحث کی ہے۔ چلئے مان لیا۔ اس کے معنی بے دین نہیں‘ مگر اس کے حامی اسے انہی سرحدوں پر لے جاتے ہیں۔ جو بے دینی سے ملتی ہیں۔ جواب میں ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ تمہارا تو آغاز ہی مذہب دشمنی سے ہوا ہے۔ کوئی سنجیدہ بحث تو کی جاسکتی ہے۔ ہند میں فکر کے دو مزاج تھے۔ ایک رابند رانا کوٹیگور کا اور دوسرا اقبال کا۔ مرا مطلب ہے تہذیبی سطح پر اس کا سیاسی سطح پر اظہار گاندھی اور جناح کی شکل میں ہوا۔ بعض دوستوں کو شکایت ہے کہ ہم نے گاندھی کو غلط سمجھا۔ اپنے ہم عصر ہندی سیاسی مفکرین میں گاندھی کو میں بہت سے دوسروں پر ترجیح دیتا ہوں۔ مگر جب دو متحارب فکری رویوں کی بات کی جائے تو میں اقبال کے ساتھ ہوں‘ ٹیگور کے ساتھ نہیں‘ جناح کے ساتھ ہوں‘ گاندھی کے ساتھ نہیں۔ یہ واضح تقسیم ہے جس نے پاکستان بنایا۔ ہمیں مشرقی پاکستان میں جو بڑا فکری چیلنج درپیش ہوا وہ یہ تھا کہ ٹیگور بنگالی تھا اور بنگال میں گہرے ثقافتی اثرات رکھتا تھا جو فکری رویوں پر اثر انداز ہوتے رہے۔ بات سے بات نکل رہی ہے۔ عرض مجھے یہ کرنا ہے کہ قومی سطح پر ہمیں فکری اور تہذیبی طور پر بہت سے سوال درپیش ہیں جو ’’منہ توڑ جواب‘‘ مانگتے ہیں۔ ایسے جواب جوان سوالات کو ملیامیٹ کر دیں یا ان کا منہ بند کر دیں ہمیں اس سے نہیں ڈرنا۔ مثال کے طور پر اوریا نے جو سوال اٹھایا ہے اس سے کئی سوال اٹھتے ہیں جو عملی ہیں۔ آیا وزیر اعظم کا فرمان ریاست کے اعلان جہاد کے مترادف ہے یا ایک لسانی بیانیہ ہے۔ عمران خاں کے کزن ماجد خاں نے بھی ایک بار غالباً بھارت کے دورے سے پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ میں بھارت جہاد کے جذبے سے کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں۔ اس پر ایک بھونچال آ گیا تھا۔ یہ لفظ اسی معنوں میں استعمال ہوا ہے یا اسے ریاست پاکستان کا اعلان جہاد کہا جائے اور یہ مان لیا جائے تو پھر یہ بھی بتانا پڑے گا کہ جہادکرنا فی زمانہ افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے یا اس اعلان کے بعد عام شہری لشکر اور جتھے بنا بنا کر کشمیر جہاد کی نیت سے جا سکتے ہیں۔ بظاہر یہ ریاست پاکستان کا اعلان ہے تو مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کے لئے کیا حکم ہے۔ پھر یہ سوال دوبارہ پیدا ہو گا کہ ہم نے جب 48ء میں قبائلی لشکریوں کو کشمیر جانے کا اذن دیا تھا کیونکہ ہمارے پاس ریگولر فوج بہت کم تھی تو اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہو گا اور ہاں کارگل پر جب ہم یہ اعلان کررہے تھے کہ یہ رضا کاروں کی کارروائی ہے اور ہم مان نہیں رہے تھے کہ یہ ہماری فوج ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔ ہم نے جب انہیں نشان حیدر تک عطا کئے تو تب مانا کہ یہ ہمارے سپاہی تھے اور نہ وہ تو تاریک راتوں میں مارے گئے تھے۔ اب جب ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ یہ بات ناپ تول کر اصولوں کے مطابق طے کریں گے تو ان باتوں پر غور لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں ذرا اچھی طرح طے کر لیجیے کہ یہ ریاست کے اعلان جہاد کے مترادف ہے یا ماجد خاں کے ’’شاندار‘‘ بیان کی طرح ایک بیان ‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی طرح کی ایک تقریر۔