سوال یہ ہے کہ مودی کاہندو راشٹر کیسا ہوگا۔اس حوالے سے مودی اینڈکمپنی کامائنڈسیٹ پڑھنے اورکئی خوفناک واقعات اورٹھوس شواہدسامنے آنے کے بعد یہ واضح ہورہاہے کہ مودی کاہندو راشٹر اس طرح ہو گاکہ جہاں مسلمان کیڑے مکوڑوں سے بدتر مخلوق تصورہونگے اوربدترین زندگی گذارنے پرمجبورہونگے،انہیں اپنی اسلامی شناخت ختم کرناہوگی۔ انہیں داڑھی ،ٹوپی اورقمیض شلوار کے بجائے ماتھے پرٹیکہ لگاکرزعفرانی طرزکاہندوانہ لباس پہنناہوگا،جہاں گائے کاٹنے والے کاٹ دیئے جائیں گے، مساجد مندروں میں تبدیل ہونگی، مدارس اسلامیہ گائو خانوں میں بدل دیئے جائیں گے اورجہاں آگرہ سے دہلی تک مغلوں کی تمام اسلامی طرزفن تعمیرات کوایک ایک کرگرایاجائے گا۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پر امن احتجاج کرنے والے طلباء پر ایک شخص نے یہ لو آزادی کہتے ہوئے گولی چلادی جس سے ایک طالب علم زخمی ہوگیا ،یہ سب ایسے وقت میں ہوا جبکہ جائے واردات پر پولیس موجود تھی ۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے مودی کے وزیر اور بی جے پی لیڈر نے دیش کے غداروں کو گولی مارنے کے نعرے لگائے تھے، غداروں سے ان کی مراد شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والے تھے اورایک نوجوان جو ابھی بالغ بھی نہیں ہے وزیر باتدبیرکے نعرے کا پریکٹیکل جواب بھی دے دیا ہے۔ یہاں بھی میڈیا میں اس نوجوان کے نا بالغ ہونے کی خبر پر زیادہ زور دیا جارہا ہے لیکن کرناٹک اسکول کے معصوم بچوں کے نا بالغ ہونے پر نہ کسی نے زور دیا اور نہ ہی پولیس کو شرم دلائی ۔ واضح رہے کہ چندیوم قبل کرناٹک کی ایک اسکول کی چوتھی پانچویں اور چھٹی کلاس کے بچوںکو پولیس والوں نے پوچھ تاچھ کی ، ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اسکول کے ایک ڈرامے میں حصہ لیا جس میں شہریت ترمیمی قانون ،اور این آر سی کے خلاف کچھ باتیں کہی گئیں ، معاملہ پولیس تک پہنچاتواس نے ڈرامے میں حصہ لینے والے بچوں کے خلاف دیش دروہی ’’غداری ‘‘کا مقدمہ درج کردیا ،جس میں کہا گیا کہ اس میں وزیر اعظم مودی جی کے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کئے گئے ۔پہلے تو پولیس نے ان بچوں سمیت تمام افراد کو پولیس اسٹیشن بلوایا اورانہیں اندرکیاگیا۔ بعدمیں بی جے پی کی طلبا شاخ اے بی وی پی نے بھگوے جھنڈے اٹھائے احتجاج کیا ، اسکول اور متعلقہ طلبا پر سخت کارروائی کی مانگ بھی کی۔ اسی طرح دہلی کے شاہین باغ میں احتجاج کر نے والی عورتوں اور اس کے منتظمین کے متعلق دشنام طرازی کی جا چکی ہے انہیں ملک مخالف بھی کہا جا چکا ہے۔یہی نہیں بلکہ ایک ہندو سنت سمیت کئی اہم ا شخاص جو خاص طور سے حکومت وقت کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے رہے ہیںکو دھمکی آمیز خط بھیجا گیا ہے جس میں ان لوگوں کو غدار کہا گیا ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر نے والوں کے ساتھ یہ جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ ہندوستان کے حال کا ایک معمولی ایشو نہیں ہے،جو اقلیتیں بالخصوص پنجاب کے سکھ یہ سمجھ کر خاموش ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے اور انہی کے خلاف ہوتا رہے گا،وہ غلط ہیں اگر انہوں نے اسی طرح اس کی خاموش حمایت جاری رکھی تو یہ آگ جو آج مسلمانوں کے گھروں کو جلا رہی بہت جلد ان کے گھروں تک بھی پہنچ جائے گی۔ یہ دراصل وہ آئینہ ہے جس میںمودی کے ذریعے ہندوراشٹر کے مستقبل کی تصویر صاف نظر آرہی ہے ، جو ہندو یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو زیر کر کے یا این آر سی کے ذریعہ انہیں ڈیٹینشن سینٹر میں ڈال کر ہندوستان سے باہر نکال کر یا انہیں سماجی سیاسی اور معاشی طور پر انتہائی لاغر کر کے یا شودر اور مہا شودر بنا کر ہندوئوں کے لئے ایک وشال ہندو راشٹر بنا لیا جائے گا، ایسا سمجھنے والے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس ہراسانی میںدیدہ بینا رکھنے والوں کے لئے ہندو راشٹر کا منظر نامہ بالکل صاف ہے کہ اس راشٹر میں دوسری رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی ،دوسری رائے دیش دروہی اور غداری کے مترادف ہوگی ، جو کوئی بھی حکومت وقت اور بر سر اقتدار طبقے کے فیصلوں اور آدیشوں کی خلاف ورزی کرے گا اس کے ساتھ اسی طرح کا برتائو کیا جائے گا جس طرح آج سی اے اے این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں، ہندووں اور بچوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کو نکالنے کے بعد یہاں بچ رہنے والی چھوت سو کروڑ ہندو آبادی سماجی سیاسی مذہبی اور فکری اعتبار سے بالکل یکساں ہو ،اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ بھی پوری ہندو سوسائٹی میں آج بھی کوئی یکسانیت نہیں ہے یہ اگر متحد ہے تو صرف مسلمانوں کے خلاف ، مسلمانوں کے بعد تو اس کے اختلافات ایسے ابھریں گے جیسے لاوا ابلتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت یا برسر اقتدار طبقہ سے اختلاف کرنے والوں کے ساتھ وہی ہوگا جو مختلف یونیورسٹیزمیں پڑھنے والے طلبا پر پولیس کے مظالم کی صورت میں ہو رہا ہے جو جامعہ میں پر امن احتجاج کرنے والے طلبا پر ایک شخص کی فائرنگ کی شکل میں ہوا ،وہی ہوگا جو ہندو مذہبی سنت سمیت اہم شخصیات کو ملے قتل کی دھمکی والے خط کی صورت میں ہوا ، اور اگر بات آگے بڑھی تو وہی ہوگا جو ڈاکٹر دابھولکرگووند پنسارے ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش کے قتل کی صورت ہم دیکھ چکے ہیں۔ مسلمانوں کو چھوڑیں ہندو سوچیں کیا وہ ایسے سماج ایسے نظام اور ایسے راشٹر کے لئے تیار ہیں؟