یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جب ظلم و زیادتی بڑھ جاتی ہے، قتل و غارت گری اور ناانصافی کا بھیانک کھیل عام ہو جاتا ہے، طاقتور کمزور کو اپنا نشانہ بناتے ہیں ،دولت مند اپنی دولت کے بل بوتے غریبوں کا استحصال کرتے ہیں، خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات اور زنا وباء کی طرح عام ہو جاتا ہے تو قدرت جلال میں آجاتی ہے۔ ظلم و جبر نانصافی و زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اپنی دولت و طاقت کے غرور کی بیماری میں مبتلا بدقماش عناصر کو ان کی حیثیت یاد دلاتی ہے کہ دیکھو تم خاکی ہو اور خاک میں ہی تمہیں جانا ہے۔ گزشتہ کم از کم 30 برسوں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ سامراجی طاقتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کیسی کیسی انسانیت سوز حرکتیں کیں۔ عراق، افغانستان، شام، لبنان، یمن، سوڈان، فلسطین جیسے ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ عراق کو تو سامراجی طاقتوں نے نوچ نوچ کر کھایا۔ بابل نینوا کی تہذیب کو تار تار کردیا۔ کئی عراقی شہروں کی شناخت ہی مٹادی۔ ماہرین تعلیم ڈاکٹروں، سائنسدانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور تاریخی آثار کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ افغانستان میں 19 برسوں تک خون آشامی کی گئی ایک خوشحال ملک کو مفلسی اور تشدد کے دلدل میں ڈھکیل دیا۔ (ہاں یہ اور بات ہے کہ طالبان نے سامراجی طاقتوں کے غرور و تکبر کو بڑی حقارت سے اپنے پیروں تلے کچل دیا) ۔شام میں عوام کا جو قتل عام کیا گیا اس پر بھی سامراجی طاقتوں نے اپنی روٹی سیکنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بڑی طاقتوں نے شام کی بری حالت کردی۔ اگر یہ عالمی برادری چاہتی تو شام میں لاکھوں انسانوں کو قتل ہونے سے بچا سکتی تھی لیکن مختلف ملکوں پر اپنے مفادات کی خاطر چڑھائی کرنے والی نام نہاد بڑی طاقتوں نے شام میں قتل و غارت گری کی پوری پوری اجازت دی۔ دنیا نے اْس تین سالہ شامی لڑکے کے ان آخری الفاظ کو بھی نظرانداز کردیا جس نے بستر مرگ پر اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے کہا تھا ’’میں اپنے رب کو سب کچھ بتادوں گا‘‘ شاید وہ شامی لڑکا اللہ عزوجل کو یہ بتانے کی بات کررہا تھا کہ شام میں بے قصور انسانوں کو بموں سے اڑایا جارہا ہے۔ بستیوں کو فضائی حملوں کے ذریعہ زمین دوز کیا جارہا ہے اور بلند و بالا عمارتوں کے ملبہ تلے ہزاروں بچے اور ان کے کھلونے بھی دبے ہوئے ہیں۔ دنیا نے یورپ کے ساحلوں پر پڑی ایسے بے شمار بچوں کی نعشیں بھی دیکھ کر خود کو خواب غفلت کے لبادہ میں چھپا لیا جو اپنے والدین کے ساتھ یوروپی ممالک ہجرت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس سلسلہ میں عالمی برادری شاید ایلان کردی کو نہ بھول پائے۔ ساحل پر پڑی جس کی نعش آج بھی عالمی برداری سے سوال کررہی ہے کہ آخر ان لوگوں نے پناہ گزینوں، مہاجرین کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کئے۔ ساری دنیا نے لبنان جیسے خوشحال ملک کو تباہ ہوتے اور وہاں عزت داروں کی عزتیں اچھالنے، نعشوں کی بے حرمتی اور معصوم بیٹیوں کی عصمتیں لوٹی جانے کے دردناک مناظر بھی دیکھے اور واقعات بھی پڑھے۔ یمن میں جو کچھ ہوا اس پر بھی عالمی برداری نے کوئی حرکت نہیں کی۔ یمنی بچے ایک وقت کے کھانے بلکہ دانے دانے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ان کی تصاویر ہی انسانوں کو رلانے کے لئے کافی ہیں۔ دوسری طرف سوڈان کو جس طرح عالمی دلالوں نے اپنے مفادات کے لئے تقسیم کیا ،ہزاروں انسانوں کی جانیں تلف کی گئیں اس کا بھی دنیا نے بڑی خاموشی سے تماشہ دیکھا۔ فلسطینیوں کے ساتھ اس کرہ ارض کا ناجائز ملک اسرائیل جو کچھ کررہا ہے اس پر بھی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ برسوں سے اسرائیل نے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کردی ہے۔ پچاس کے دہے سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اسرائیل ارض مقدس فلسطین کی تاریخی حیثیت مٹانے کے مسلسل اقدامات کررہا ہے اور عالم اسلام بھی مجرمانہ خاموشی و بے حسی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس میں ہمت نہیں کہ ببانگ دہل اسرائیل کی درندگی اور اس کے سرپرستوں کی مکاریوں کو بے نقاب کرے۔ یہ تو فلسطین کا معاملہ رہا۔ میانمار میں جو کچھ ہوا جس طرح روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ان کے گائوں کے گائوں نذر آتش کئے گئے، کمسن لڑکیوں و خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات پیش آئے۔ (فی الوقت سات لاکھ سے زائد روہنگیائی بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں)۔ میانمار کے بدھشت دہشت گردوں اور فوج کی ان وحشیانہ حرکتوں پر بھی عملی اقدامات کی بجائے دنیا نے صرف اور صرف زبانی ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ تو رہی میانمار کی بات مصر میں ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا خواب دیکھنے والوں کو کیسے موت کے گھاٹ اتارا گیا کس طرح قانون و انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں کیسے دیانت دار قیادت کو اقتدار سے بیدخل کیا گیا ان تمام واقعات پر بھی دنیا خاموش رہی۔ دنیا تو خاموش رہ سکتی ہے لیکن قدرت ظلم و جبر پر کبھی خاموش نہیں رہتی اس کے ساتھ جو مکر کرتے ہیں انہیں ان کے اپنے مکر و سازشوں کے پھندوں کا شکار بنا دیتی ہے۔ کبھی سیلاب، کبھی طوفان باد و باراں، کبھی سونامی تو کبھی زلزلوں اور بیماریوں کی شکل میں قدرت اپنا قہر نازل کرتی ہے۔ اب ساری دنیا نے دیکھا کہ قدرت نے کرونا وائرس کی شکل میں قہر نازل کیا ہے۔ سادہ آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے ایک خورد بینی کرونا وائرس کے ذریعہ قدرت نے سب کو بے بس کردیا ہے۔ سوپر پاور کہلانے والے ملکوں میں حشرات الارض کی طرح انسان فوت ہو رہے ہیں۔ ’میں،’ میں‘ کہنے والے حکمرانوں کی عقلیں کام نہیں کررہی ہیں۔ انصاف کا قتل کرنے والے اب انصاف کی باتیں کرنے لگے ہیں لیکن کرونا وائرس اپنی تباہی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ 70 دنوں کے دوران چین اور یوروپی ممالک کے بشمول 202 ملکوں میں کم از کم 6 لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور 30 ہزار سے زائد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ متاثرین میں 23,560 کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ اس طرح آئندہ چند دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ اب تک جو لوگ متاثر اور فوت ہوئے ہیں اس کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یومیہ 8571 افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ دنیا میں یومیہ کم از کم 430 افراد کروناوائرس کا شکار بن کر لقمہ اجل بن رہے ہیں۔