انگریز جب اس برصغیر پاک و ہند کو چھوڑ کر گیا تو اس نے اپنے پیچھے تین گروہ ایسے چھوڑے جن کے دلوں میںتاجِ برطانیہ کی وفاداری، اس کی ثقافت سے عشق اور سیکولر نظامِ سیاست و معاشرت پیوست ہو چکا تھا۔ ان تینوں طبقات کو بڑی محنت سے منظم کیا گیا اور بڑی جانفشانی سے ان کے خیالات و افکار اور رہنے سہنے کے اطوار کو جدید سیکولر تہذیب کے رنگ میں رنگا گیا تھا۔ ان تینوں طبقات کی تخلیق پر انگریز آج بھی فخر کرتا ہے اور ان کی وفاداریوں پر ناز کرتا ہے۔ ان لوگوں کی ماہیتِ قلبی ایسی ہوئی ہے کہ وہ اپنی قوم، نسل اور مذہب سے کہیں زیادہ تاجِ برطانیہ سے وفاداری کا دم بھرتے اور ان کی تہذیب کو بالاتر سمجھتے ہیں۔ لیکن مذاق میں آج بھی انگریز ہندوستان کے رہنے والے ان وفاداروں کو ’’ناریل‘‘ (Coconut)کہتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ بظاہر ایک گندمی یا مٹیالا ہندوستانی، مگر اندر سے مکمل طور پر ’’گورا‘‘۔ اپنے لئیے برِصغیر میں بولے جانے والی’’گورے‘‘ کی اصطلاح کو انگریز اسقدر پسند کرتا ہے کہ آج بھی اپنے آپ کو دیگر یورپی اقوام سے مختلف بتانا چاہے تو کہتا ہے کہ میں ’’گورا‘‘ ہوں، بلکہ بعض گورے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میں ’’پکا گورا‘‘ ہوں جس کا مطلب ہوتا ہے ’’Real British‘‘۔ ہندوستان میں ناریل نما تین گروہ جو انگریز ورثے میں چھوڑ گیا، وہ تھے،( ۱)سیاسی جاگیرداراشرافیہ( ۲) فوج اور( ۳)سول بیوروکریسی۔ یوں تو بظاہر یہ تین مختلف گروہ ہیں، لیکن ان تینوں کی وجۂ تخلیق، ترتیب اور پہچان ایک ہی ہے۔ اسی لئیے وقت کے ساتھ ساتھ یہ تینوں ایک بہت بڑے شجرئہ نسب میں منسلک ہو چکے ہیں۔ ان کی رگوں میں ایک دوسرے کے آباء و اجداد کا خون یوں خلط ملط ہو چکا ہے کہ اب یہ ایک نسل، قوم، قبیلہ اور برادری نظرآتے ہیں۔ ان ’’ناریل‘‘ نما ہندوستانیوں کی تخلیق کئی مراحل سے گزری ہے۔ بے شمار اقوام، نسلیں اور گروہ آزمائے گئے اور آخر کار منتخب افراد کا ایک انبوۂ کثیر تیار کر کے اس خطے پر مسلط کر دیا گیا، جو آج بھی اسی طرح مسلط ہے۔ انگریز جب بنگال، میسور، ممبئی، مدراس اور دیگر علاقے فتح کر چکا، تو اس کے پاس مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد آ گئی جو معمولی مشاہرے پر اس کے لئیے اپنے ہی ہم وطن ہندوستانیوں سے لڑنے اور انہیں قتل کرنے کے لئے تیار تھی۔ یہ افراد تین مختلف فوجی گروپوں میں تقسیم کر دئیے گئیے تھے،( ۱) بنگال آرمی( ۲) مدراس آرمی اور (۳) بمبئی آرمی۔ مقامی طور پر بھرتی کئے گئے یہی فوجی تھے جن کے ذریعے انگریز نے ہندوستان کی دیگر ریاستوں کو فتح کرنا شروع کیا اور پھر آخرکار تختِ دہلی کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے۔ دلّی پر قبضے سے پہلے انگریز فوج افرادی قوت کے حساب سے ان گروپوں پر اسطرح تقسیم تھی، (۱) بنگال آرمی (1,61,703)، (۲) مدراس آرمی (65,553) اور( ۳) بمبئی آرمی (55,069)۔ ان میں گوروں کی تعداد صرف 16فیصد یعنی 45,104تھی، اور مقامی افراد کی تعداد 84فیصد یعنی 2,80,325تھی۔ یہی بنگالی، مدراسی اور بمبئی کے چھوٹے چھوٹے قد والے سپاہی ہی تھے جنہوں نے 1849ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ’’دلیر‘‘،’’جانباز‘‘ ، وفادار اور منظم فوج کو ذلت آمیز شکست دی تھی۔ رنجیت سنگھ کے فوجی وہ تھے جن کی تربیت جنرل وینچورا(Ventura) اور جنرل فرانکوس (Francois) جیسے فرانسیسی جرنیلوں نے کی تھی۔ شکست کا یہ عالم تھا کہ انگریز نے پورے پنجاب میں آباد سکھوں سے ایک لاکھ بیس ہزار ہتھیار واپس لیے اور پچاس ہزار سکھ سپاہیوں کو لاہور میں جمع کر کے تھوڑے تھوڑے پیسے دے کر فارغ کر دیا۔ یہ اس وقت کا گولڈن شیک ہینڈ تھا۔ رنجیت سنگھ کی فوج کی شکست سے صرف پنجاب پر ہی انگریز کا قبضہ نہیں ہوا تھا بلکہ پورے خیبرپختونخوا، کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان تک انگریز کی عملداری میں آگئے تھے۔ کیونکہ یہ تمام علاقے رنجیت سنگھ کی سلطنت میں شامل تھے۔ اب انگریز کی نظر تختِ دلّی پر تھی۔ بنگال کی رجمنٹوں میں چونکہ زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی تھی اس لئیے ان میں آہستہ آہستہ نفرت کی چنگاریاں سلگنے لگیں۔ گورے کے منصوبوں اور مسلمانوں سے اسکے طرزِ عمل کا وہ کم از کم پچاس سے زیادہ سالوں کا تجربہ رکھتے تھے، اسی لئیے 10 مئی 1857ء کو بنگال آرمی کی ’’بیس بنگال مقامی پیادہ رجمنٹ (20th Bengal Native Infantry) اورتیسری گھڑ سوار رجمنٹ (Third Light Infantry) نے میرٹھ چھاونی میں بغاوت کر دی۔ اس وقت بنگال رجمنٹ کے 23ہزار کے قریب گورے آفیسر پنجاب میں تعینات تھے، کیونکہ یہ خطہ ابھی نیا نیا فتح ہوا تھا اور موجودہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے علاقوں سے ابھی بھرتی کا آغاز ہی ہوا تھا۔ان علاقوں سے بھرتی ہونے والوں کی تعداد صرف 13,430تھی جس سے ایک رجمنٹ بنائی گئی تھی جس کو آج بھی پفرز(Piffers) کہا جاتا ہے۔ اس یونٹ میں پنجابی مسلمان، پختون، سکھ، ڈوگرے اور گورکھے بھرتی کئیے گئے تھے۔ میرٹھ کی بغاوت کے آٹھ دن بعد یعنی 18مئی1857ء کو اس یونٹ کا جنم دن، سالگرہ یا برتھ ڈے ہے۔ اس یونٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے علاقوں میں بنگال آرمی کے تمام سپاہیوں سے ہتھیار واپس لے لئیے اور یوں پنجاب، خیبرپختونخوا اور کشمیر کے علاقوں پر انگریز کا قبضہ مستحکم ہو گیا۔ اب وہ میرٹھ کی بغاوت کو کچلنے کے ساتھ ساتھ تخت دلّی پر قبضہ کی جانب بڑھنے لگا۔ بنگال رجمنٹ کے سپاہی میرٹھ سے دلّی پہنچ کربہادر شاہ ظفر کی ہندوستان پر بادشاہت کا اعلان کر چکے تھے۔ جامع مسجد دلّی کے منبر سے علامہ فضلِ حق خیرآبادی، مفتی صدر الدین آزردہ اور مولانا سید کفایت اللہ کافی نے دیگر علماء کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کر دیا تھا۔ جہاد کے اس فتوے پر مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، پیر مولانا دوست محمد آف صوابی، مولانا فیض محمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی اور سید مبارک حسین رام پوری کے دستخط ثبت تھے۔ فوج میں انگریز کے خلاف بغاوت اور اس فتوے کی موجودگی میں انگریز کو وفا داروں کی تلاش تھی۔ پورا ہندوستان بغاوت کے شعلوں میں لپٹا ہوا تھا ایسے میں پنجاب کے سکھوں اور مسلمانوں، سرحد کے پختونوں، ڈوگروں اور گورکھوں پر مشتمل ’’پفرز‘‘ یونٹ نے پنجاب اور موجودہ پختونخواہ کے علاقوں کو شاندار طریقے سے قابو میں کر رکھا تھا۔ اس یونٹ کی تعداد کو مزید بڑھانے کے لئیے بھرتیاں شروع ہوئیں تو انگریز کی نظرِ انتخاب رنجیت سنگھ کی سابقہ سلطنت پر ہی پڑی جو کبھی پشاور سے لے کر پانی پت تک پھیلی ہوئی تھی۔ 18مئی1857ء سے لے کر ستمبر 1857ء تک یہاں سے چونتیس ہزار افراد بھرتی کئے گئے۔ ان میں سکھ اور مسلمان پنجابی، ہزارہ اور پشاور کے پشتون، ڈوگرے اور گورکھے شامل تھے۔ تین سو سکھوں پر مشتمل تربیت یافتہ توپ خانہ (Artillary) بھی اس فوج میں شامل تھا۔ یہ تھے وہ لوگ جو انگریز کی وفاداری کا طوق گلے میں پہنے، فتویٰ جہاد کی پرواہ کئے بغیر، اپنے ہی ہم وطن لوگوں سے لڑنے کے لئیے نکلے اور ان کی مدد سے دلّی کے لال قلعے پر یونین جیک لہرادیاگیا۔ جنگِ آزادی 1857ء جیتنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کردی گئی اور ہندوستان تاجِ برطانیہ کی براہِ راست عملداری میں آگیا۔ برطانوی راج کا آغاز ہوا تو اس وقت تک برطانوی فوج میں بنگال آرمی سب سے بڑی تھی، جسے ناقابلِ اعتبار سمجھتے ہوئے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا اور ان کی جگہ نئے وفادار ہندوستانیوں کو بھرتی کیا جانے لگا۔ انگریز نے جنگجو اقوام (Martial Races) کا ایک تصور پیش کیا۔ یہ ان غداروں کی قومیں تھیں جنہوں نے جنگِ آزادی میں انگریز کی مدد کی تھی۔ انگریزوں کے نوٹیفکیشن کے مطابق یہ جنگجو اقوام، آہیر، آرائیں، اعوان، بلوچ، ڈوگر، گکھڑ، گجر، جنجوعہ، جاٹ، کمبوہ، کھٹر، کھوکھر، لبانہ، مغل، پٹھان، قریشی، راجپوت، سیانی، سیال، سید اور ٹھاکر تھے۔ ان اقوام کے سرداروں، چوہدریوں، خانوں اور وڈیروںکو انگریز نے منتخب کیا، مراعات دیں، زمینیں اور جاگیریں عطا کیں اور ان کی اولادوں کو فوج اور سول سروس میں بھرتی کرکے تربیت کی ایک ایسی بھٹی سے گزارا کہ صرف چند دہائیوں بعد، ایک ایسی نسل تیار ہو کر سامنے آگئی جو اخلاق، اقدار، تہذیب، سب حوالوں سے مکمل انگریز تھے، مگر شکل و صورت سے مٹیالے، سانولے اور گندمی ہندوستانی نظر آتے تھے۔ یہ تھے موجود پاک و ہند کی سرزمین کے ’’ناریلوں‘‘ کے آباء و اجداد۔