نور جہاں سرور جہاں کورونا وائرس کے بیچ ہنگام اس لئے کھینچ مارا تھا کہ کورونا کے خوف و دہشت کے باعث اسکرینوں پر جو شور و غوغا ہورہا ہے ۔ ۔ ۔ اُس سے پہلے ہی سے ذہنی بلکہ نفسیاتی طور پر پریشانی میں مبتلا گھروں میں مہینوں سے نظر بندوں کے منہ کا ذائقہ بدلا جائے۔ ۔ ۔ مگر حسب ِ روایت ٹوئٹر اور فیس بُک پر ہا ہا کار مچی ہے کہ ایک تو ہمارے ہاں ’’ہیرو‘‘ خال خال ہوتے ہیں،اُن کے بھی آپ گڑھے مردے اکھیڑ نے لگتے ہیں۔ ۔۔ ۔ چلیں،معذرت ۔ ۔ ۔ مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہر بڑ ے آدمی کی شخصیت میں ایک ایسا تضاد ہوتا ہے کہ جو خامی اور کمزوری ہوتے ہوئے بھی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ بھٹو صاحب کو ہی لے لیں۔لاکھوں کے مجمع میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’ ہاں،پیتا ہوں،مگر عوام کا خون تو نہیں پیتا۔‘‘ بھلے میڈم اپنے خاندانی پس منظر کے سبب غصے میں پھول جھڑ دیتی ہوں ،مگر اب یہ بھی تو حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں نصف صدی اوپر سے دنیائے موسیقی پر راج کررہی ہیں۔ ہمارے سابق سفارت کار کرامت اللہ غوری کی سوانح روزگار فقیرمیں ایک میڈم کیا۔ ۔۔ بڑے بڑے پرہیز گار اور ثقاء شریف الطرفین کے بارے میں ایسے ایسے قصے بیان کئے گئے ہیں کہ انگلیاں دانتوں کے درمیان ہوںتولہو لہان ہوجائیں۔ میڈم کی جاپان آمد اور پھر ٹوکیو ایئر پورٹ پر جو انہوں نے ہنگامہ کھڑا کیا۔ ۔ ۔ اس میںلگتا ہے لکھاری نے بقول شاعر : ع کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں سو میڈم نورجہاں کی زبان جو آگ بگولہ بنی تو سبب بھی تو تھا کہ ’’سیّاں‘‘ کوتوال تھے۔ ۔ ۔ سابق سفارتکار کرامت اللہ غوری لکھتے ہیں: ’مطاہر حسین صاحب نے بتایا کہ میڈم کے جاپان میں نزول سے پہلے ان کے پاس صدر ِ محترم یحییٰ خان کا خفیہ تار جسے ہماری سفارتی اصطلاح میںCypher Telegramکہا جاتا ہے۔ ۔ ۔ آیا تھا جس میں ہدایت تھی کہ میڈم کا خصوصی استقبال کیا جائے اور انہیں مناسب پروٹوکول بھی دیا جائے ۔ان ہدایات پر تو کما حقہ عمل ہوا ۔ ۔ ۔ لیکن کھنڈت اس وقت پڑی جب میڈم پاکستان واپس جانے کے لئے بارہ عدد سوٹ کیسوںکے ساتھ ٹوکیو کے ہوائی اڈے پر پہنچیں۔میڈم صدر ِ مملکت کی منظور ِنظر سہی لیکن ہوائی جہاز ان کے لئے پانی کا جہاز تو نہیں بن سکتا تھا۔پی آئی اے کے اسٹیشن منیجر نے کہا کہ وہ دو تین سوٹ تو اضافی سامان (excess baggage)کے طور پر چھوڑ سکتا تھا لیکن درجن بھر سوٹ کیس اضافی کرایہ دئیے بغیر نہیں جاسکتے تھے۔پی آئی اے کے افسروں میں اس وقت تک کچھ دیانت داری تھی ،کچھ خوف ِ خدا یحییٰ خان کے خوف سے بڑھ کر تھا۔ ’’لیکن میڈم تو اس ترنگ میں تھیںکہ ان کے سیّاں ملک بھر کے کوتوال تھے ۔ ۔ ۔ تو کس کی مجال تھی کہ ان سے اضافی کرایہ وصول کرنے کی جسارت کرتا ۔ ۔ ۔ سو شرافت کا لبادہ جو ان پر ہلکا سا پڑا ہوا تھا۔ ۔ ۔ اس کو انہوں نے ایک جھٹکے سے اتار پھینکا ۔ ۔ ۔۔ اور اتر آئیں اس بازاری زبا ن پر جس کی بو ان کے اندر آنکھ کھول کر بھری تھی۔ ۔ ۔ مطاہر حسین صاحب اس وقت بھی کھانے کی میز پر میڈم کی ملاحیوں کا احوال سناتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اپنے گال توبہ توبہ کہتے ہوئے تھپتھپا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ۔ ۔ ۔ ’’انہوں نے زندگی میں کبھی کسی عورت کو ایسی فحش گالیاں دیتے نہیں سناتھا‘‘۔ ۔ ۔ میڈم کے تیر صرف پی آئی اے انتظامیہ پر ہی نہیں برس رہے تھے۔ ۔ ۔ بلکہ سفیر محترم بھی ان کی زد میں پورے پورے تھے۔زہریلے تیر انہیں بھی چھیدتے رہے۔۔ ۔ ’’ٹوکیو ایئر پورٹ سے کراچی میں پی آئی اے کے صدر دفتر فون کھڑکھڑائے گئے اور وہاں سے ایوان ِ صدر سے حکم صادرہوا کہ میڈم کا جتنا بھی سامان ہے وہ بغیر تُلے ہوئے ،وزن کی قید سے آزاد جہاز پر چڑھایا جائے اور پی آئی اے کے تمام افسران محترم خاتون سے بدسلوکی کی معافی مانگیں۔۔ ۔ میڈم تو اپنے ’’ سیّاں کوتوال ‘‘،آغا جی کی مدح میں ترانے گاتی ہوئی پاکستان سدھار یں ۔ ۔ ۔ لیکن فرض شناس پی آئی اے اسٹاف پر ان کے جانے کے بعد نزلہ گرا ۔ ۔۔ ان غریبوں کے خلاف محکمانہ کاروائی کا حکم جاری ہوا۔مطاہر حسین صاحب بھی کہاں بچتے ۔ ۔ ۔ ان کو بھی ایوان ِصدر کی طرف سے فرض میں کوتاہی کامجرم گردانا گیا اور ایک تہذیبی سرکاری خط میںجسے ہماری سرکاری لغت میں Stinkerیعنی بدبو دار کہا جاتا ہے،کے ذریعہ ان سے وضاحت (explanation) طلب کی گئی کہ انہوںنے پاکستان کی خاتون اول کو بے عزت ہونے سے کیوں محفوظ نہیں رکھا ۔ ۔ ۔‘‘ میڈم کے ان شاہانہ کارناموںکو ایک ضخیم کتاب میں مرتب کیا جاسکتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر افسوس کہ ان گنہگار آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ کراچی کے کڈنی سینٹر میں ۔ ۔ ۔ ہاکی کے ممتاز کھلاڑی حسن سردار کو جو اُن کے داماد تھے ، نے انہیںاپنی گود میں بڑی احتیاط سے بٹھا رکھا تھا ۔ ۔ ۔ میڈم ماشاء اللہ اپنی بیماری سے قبل خاصی فربہ ہوچکی تھیں۔ ۔ ۔ مگر ایسا لگا جیسے حسن سردار نے گود میں کسی چودہ سالہ بچی کو اٹھا رکھا ہے ۔ دونوں گُردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ۔ ۔ غنودگی کے عالم میں تھیں۔ ۔ ۔ آنکھوں میں نمی آگئی۔ ۔ ۔ آنکھ بھر کے بھی نہ دیکھا ۔ ۔ ۔ کیسا ’’عروج‘‘، کیسی شان اور تن تناؤ ۔ ۔ ۔ اور آخری لمحوں میںیک و تنہا۔ ۔ ۔ ؟