امریکی ڈرون حملوں میں ایرانی ملٹری کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق میں برسرپیکار شیعہ عسکری گروپ الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی ہلاکت اور اسکے جواب میں عراق میں موجود دو امریکی اڈوں پر ایرانی میزائلوں کی بارش نے مشرق وسطیٰ کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا کرکے رکھ دیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ فی الحال جنگ کے باد ل چھٹ گئے ہیں، مگر دونوں فریق ایک طویل خفیہ اور اعصابی جنگ لڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ یوکرائن کے مسافر بردار طیارہ کو نشانہ بنانے اور اسکے مسافروں کی ہلاکت نے ایران کو شرمندگی سے دوچار تو کردیا ہے، مگر یہ بھی دکھا دیا کہ ایسے حالات میں صرف ٹیکنالوجی پر ہی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے سال اکتوبر سے مغربی ایشیاء خطے میں خاص طور پر عراق ، لبنان اور خود ایران کے اندر تہران حکومت اور اسکی پالیسیوں کے خلاف ایک ماحول سابن گیا تھا۔ عراق اور لبنان میں عوام، فرقہ بندی سے اوپر اٹھ کر غیر ملکی خصوصاً بے جا ایرانی مداخلت پر سیخ پا تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ موجودہ حکومتیں کرپشن میں ملوث ہونے اور نااہلیت کے باوجود بس ایرانی شہر پر اقتدار میں جمی ہوئی ہیں۔ جب جنرل سلیمانی کے قا فلے پر بغداد ایر پورٹ کے نزدیک حملہ کیا گیا، اس سے چند گھنٹہ قبل وہ عراق کے عبوری وزیر اعظم عاد ل عبد المہدی کے ساتھ ملک میں جاری مظاہروں سے نپٹنے اور متبادل حکومت پر گفت و شنید کر کے ایک پلان پر بات کرنے آئے تھے۔ خیر سلیمانی کی موت کے بعد یہ مظاہرے بھی فی الحال بند ہو گئے ہیں۔ شاید جنرل سلیمانی جو کچھ زندہ رہ کر نہیں کر پائے وہ ان کی موت نے کرکے دکھایا۔ خطے میں خاص طور پر شام، لبنان اور عراق میں ایرانی مفادات کے خلاف جو رائے عامہ بن گئی تھی ، اس کا بہائو راتوں رات امریکہ کے خلاف ہو گیا۔ افسانوی کردار کے حامل جنرل سلیمانی کے کارنامے ایران کی فوجی تاریخ میںایک درخشاں باب کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔وہ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی حلقوں میں شمار کئے جاتے تھے۔جو لوگ ان کو سنیوں کا دشمن اور عرب مخالف قرار دیتے ہیں، ان کیلئے عرض ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کے بعد جب اسامہ بن لادن کے مرشد الولید، اسامہ کی فیملی اور دیگر لیڈروں کیلئے پناہ گاہیں تلاش کررہے تھے، تو دسمبر 2001ء میں انہوں نے ایرانی سرحد پر دستک دی، جہاں جنرل سلیمانی نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ 2005ئتک القاعدہ کے چوٹی کے لیڈر ایران میںہی مقیم رہے۔ بعد میں ان میں سے چار لیڈران کو انتہائی خفیہ مشن کے ذریعے دمشق پہنچایا گیا۔ جن میں اسامہ کے بیٹے حمزہ کے والد نسبتی ابو محمد المصری بھی شامل تھے۔ حمزہ بن لادن کی فیملی بھی ایران کی ہی پناہ میں تھی۔ اسامہ بن لادن کے نیٹ ورک پر مبنی تحقیقی کتاب The Exile کے مصنف اور مشہور تفتیشی صحافی ایڈرین لیوی کا کہنا ہے، کہ ان کے پاس القاعدہ لیڈران کے خطوط، دیگر کیمونیکیشن اور انٹریوز کی صورت میں شواہد کا ایک ذخیر ہ موجود ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے، کہ 9/11کے فوراً بعد ہی القاعدہ کے جنرل سلیمانی کے ساتھ روابط قائم ہوچکے تھے۔ امریکی انتظامیہ اسامہ بن لادن ، اسکے افراد خانہ اور دیگر راہنمائوں کے ٹھکانوں سے پوری طرح باخبر تھی۔ مگر اس نے انکو نشانہ بنانے یا گھیرنے میں کوئی دلچسپی نہیںدکھائی۔ بجائے ان کے نام پر غیر متعلق علاقوں یعنی افغانستان اور پاکستان پر بم برسائے گئے اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے اور القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں عراق پر فوج کشی کرکے اسکو تباہ و برباد کیا گیا۔ امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ2002 ء میں ہی القاعدہ اور اسکی ملٹری کونسل کے اراکین اور اسامہ بن لادن کی فیملی کوحراست میں لیکر القاعدہ کے سربراہ کو منظر عام پر آنے پر مجبور کرسکتے تھے۔ امریکیوں کو معلوم تھا، کہ ان میں سے اکثر اسوقت ایران میں موجود تھے۔ مگر صدر بش نے دیگر سیاسی اہداف حاصل کرنے لئے اسکو عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ بنایا۔چند برس قبل عراق کے دورہ کے دوران مجھے داعش کے ساتھ برسر پیکار عراق کی نیم فوجی رضاکار تنظیم الحشدالشعبی کے کمانڈروں سے ملاقات کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے کہ کربلا میں روضہ حضرت امام حسینؓ کی بغل میں السفیر ہسپتال میں زیر علاج الحشد کے ایک زخمی سپاہی عادل فوزی نے بتایا کہ اس نے صلاح الدین صوبہ کے ایک فرنٹ کی نگرانی کرتے ہوئے بچشم خود امریکی جہازوں کو داعش کے علاقوں میں ہتھیار گراتے ہوئے دیکھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایک جہاز پر فائر بھی کھولا۔ فوزی کی دونوں ٹانگیں ناکارہ ہو چکی تھیں۔ مگر چند روز بعد بغداد میں الحشد کے ہیڈکوارٹر میں کمانڈر کریم النوری ہمیں بتا رہے تھے کہ تقریباً 5000 امریکی اور 300 ایرانی فوجی ماہرین ان کے عسکریوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔ جب ہم نے ان سے فوزی کے دعویٰ کے بار ے میں استفسار کیا اور جاننا چاہا کہ کیا یہ اس طرح کا کیس نہیں ہے، جہاں امریکی ایک طرف الحشد کو تربیت دے رہے ہیں، تو دوسری طرف آپ کے دشمنوں کوہتھیار دے رہے ہیں، وہ بس بغلیں جھانکنے لگے۔ القاعدہ کے لیڈروں کو پناہ دینے اور امریکہ کو برانگیختہ کرنے جیسے امور کے حوالے سے ایران کے اعتدال پسند صدر محمد خاتمی اور جنرل سلیمانی کے درمیان خاصے اختلافات رہے۔ مگر نہ صرف ملٹری بلکہ سفارتی امور پر بھی اکثر مواقع پر جنرل سلیمانی کی رائے ہی حرف آخر سمجھی جاتی تھی۔ 2005ئمیں بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے اجلاس میں جب بھارت نے ایران کے خلاف ووٹ دیا، تو تہران میں ایک کہرام مچ گیا تھا۔ ایرانی سفارت کاروں نے حکومت کو بتایا تھا کہ بھارت زیادہ سے زیادہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہیگا۔ ایرانی افسران کا خیال تھا کہ مارچ 1994ء میں جموں کشمیر میں حقوق انسانی کی ابتر صورت حال کے حوالے سے جس طرح ایران نے بھارت کو اقتصادی پابندیوں سے بچایا تھا، بھارتی مندوب اس احسان کو بھول نہیں پائے ہونگے۔ مگر امریکہ کے ساتھ چونکہ اسوقت جوہری ڈیل زیر بحث تھی، اس لئے نئی دہلی نے تہران کے ساتھ دوستی کو قربان کردیا۔ تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) نے 1994 ء میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن (بعد میں اسکو کونسل میں تبدیل کیا گیا) میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی بھی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاںعائد کرنے کے قواعد تقریباً تیار تھے۔ مگر اس دوران کوہ البرزکے دامن میں واقع تہران ایئر پورٹ پر شدید سردی میں بھارتی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے نے برف سے ڈھکے رن وے پر لینڈنگ کی۔ یہ طیارہ اس وقت کے وزیر خارجہ دنیش سنگھ اور تین دیگر مسافروںکو انتہائی خفیہ مشن پر لے کر آیا تھا۔ دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ وہ اسٹریچر پر ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نام وزیر اعظم پی وی نرسمہا رائو کا اہم خط لے کر آئے تھے اور ذاتی طور پر ان کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔ سوئے اتفاق کہ 'راجہ صاحب‘ دنیش سنگھ کا یہ آخری سفارتی دورہ ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد وہ دنیا سے کوچ کرگئے۔ اس وقت بین الاقوامی برادری میں بھارت کی پوزیشن مستحکم نہیں تھی ۔ اقتصادی صورت حال انتہائی خستہ تھی، حتیٰ کہ سرکاری خزانہ بھرنے کے لئے حکومت نے اپنا سارا سونا بیرونی ملکوں میںگروی رکھ دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ رائو نے عندیہ دیا تھا کہ اگر اس مشکل گھڑی میںایران ،بھارت کی لاج رکھتا ہے اور مغربی ممالک کی مداخلت رکوانے میں مدد کرتا ہے تو بھارت جلد ہی کشمیر کے مسئلہ کے حتمی حل کیلئے اقدامات اٹھائے گا ۔2005ء میں تہران کے بھارتی مشن میں ڈیفنس صلاح کار برگیڈیر ایل سی پٹنائک کے مطابق سلیمانی ،جو خود بھی اسوقت برگیڈیر تھے، نے بھارت اور ایران کے درمیان تعلقات میں پیدا کشیدگی کو کم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مغربی ایشیاء میں جنرل سلیمانی نے ملٹری اور انٹیلی جنس کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا تھا۔ عراق میں الشعبی کی صورت میں ایک لاکھ کے قریب جنگجو اور لبنان میں حزب اللہ کی صورت میں ایک مؤثر عسکری تنظیم ان کے زیر اثر تھی۔ ان کے جانشین کیلئے اس خلا کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن لگ رہا ہے۔ عراق میں شیعہ لیڈر مقتدی الصدر اور ایران کے حامی لیڈران کے درمیان چپقلش منظر عام پر آچکی ہے۔ ایران کیلئے اطمینان کی وجہ یہ ہے کہ 1990اور 2003کے خلیجی جنگوں کے برعکس اس وقت اسکے ہمسایہ ممالک میں خطے میں کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا ہے۔ ایران کے آس پاس 11ممالک میں امریکی فوجی مستقر ہیں۔ ان میں خاص طور پر ترکی، قطر اور کویت نے علانیہ طور پر امریکہ کو بتایا کہ جنگ کی صورت میں یہ تینوں ممالک اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دینگے۔ بتایا جاتا ہے کہ عمان، بحرین اور حتیٰ کہ متحدہ امارات اور سعودی عرب نے بھی جنگ سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ۔ جس کے بعد ہی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور اس نے کشیدگی کم کرنے کا عندیہ دیا۔ ویسے بھی مغربی ایشیا میں کشیدگی کا براہ راست خمیازہ جاپان، چین اور بھارت کو بھگتنا پڑے گا ۔ یہ ممالک اس خطے سے سب سے زیادہ تیل اٹھاتے ہیں۔ امریکہ پچھلے چند برسوں سے مڈل ایسٹ سے تیل کا ایک قطرہ بھی نہیں خریدتا ہے۔ وہ اپنی انرجی کی ضروریات اب ناروے، روس اور داخلی سورسز سے حاصل کرتا ہے۔