اکتوبر 1962ء کا ایک خوبصورت دن تھا۔ نستعلیق لکھنوی انداز کی شخصیت کے حامل بیرسٹر عباس صدیقی کافی کی چُسکیاں لیتے ہوئے گراموفون پر بڑے غلام علی خاں کی آواز میں ایک ٹھمری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ اچانک چوکیدار اندر داخل ہوا… اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور ہیجان اس کی باڈی لینگوئج سے عیاں تھا۔ ’’سرکار چین نے ہندوستان پر حملہ کردیا‘‘۔ بیرسٹر صاحب نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ دیا۔ گراموفون بند کردیااور کہنے لگے ’’دیکھو … گھر کا گیٹ بند کردو‘‘۔ عباس صاحب لکھنؤ میں واقع گورنر ہائوس کے سامنے ایک سٹائلش بلڈنگ میں رہتے تھے۔ اسی دوران ان کی اہلیہ بھی کمرے میں آچکی تھیں۔ وہ ساری بات سن چکی تھیں۔ یہ تھیں بیگم اختر کلاسیک ٹھمری سنگر اور ایکٹرس، وہ اپ سیٹ ہوئیں مگر اپنی پریشانی پر مسکراہٹ اوڑھ لی۔ نہرو ان کے خاندانی دوست تھے۔ پنڈت نہرو کا ایک اپنا اخبار تھا ’’نیشنل ہیرالڈ‘‘۔اس اخبار نے نہرو کا ایک بیان شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا ’’قوم پر کڑا وقت ہے۔ پوری طاقت سے اس کا دفاع کریں گے‘‘۔ اس جنگ میں بھارت کو بری طرح شکست ہوئی مگر لیڈر شپ سمجھدار اور لچکدار تھی … ہزیمت اور ہار کو ڈپلومیسی میں ہضم کر گئی۔ پتہ نہیں یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ بدصورتی کہ اس وقت دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کو دو بدصورت ترین لیڈرز میسر ہوگئے ہیں۔ جی میری مراد … نریندارا مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے۔ نریندر مودی کو پہلی ٹرم میں گلوبل کارپوریٹ سیکٹر کی قوتیں اس لیے اقتدار میں لائیں تھیں کہ ان کے مطابق بھارت ان کی پراڈکٹ اور تجارت کے لیے ایک بڑی مارکیٹ تھا۔ مگر بھارت کے ذات برادری کے سماج کی اپنی کیمسٹری ہے۔ بابائے قوم نہرو آئین میں جتنا مرضی گلابوں جیسا سیکولرازم ڈالیں، سوشل ٹہنیوں پر ’ہندو انتہا پسندی‘ کے کانٹے ہی اُگتے ہیں۔ غربت، کرائم، انڈرورلڈ اور سیاست ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں۔ ہندو قوم پرستی کو بنام سیاست مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ مودی کا پہلا دور ہی کچھ کم نہ تھا کہ وہ دوسری مرتبہ بھی اقتدار میں آگئے۔ وہ امریکہ اور اسرائیل کی ڈارلنگ ہیں۔ مسلم دشمنی کی بنا پر ایسے میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شہ پر وہ کچھ کر گزرے جو پنڈت نہرو ہوتے تو کبھی نہ کرتے۔ 5؍ اگست 2019ء کے دن بھارتی پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 میں تبدیلی لا کر جموں، کشمیر اور لداخ کا اسٹیٹس بدل دیا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر سی پیک کا ڈول کیا ڈالا … امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی نیندیں اُڑ گئیں۔ بھارت کبھی ہمیں بلوچستان میں تنگ کرتا ہے اور کبھی پاک افغان بارڈر پر … کبھی روایتی طریقہ جنگ سے تنگ کرتا ہے اور کبھی غیرروایتی حربوں سے، جسے Hybrid War بھی کہتے ہیں۔ چین بھی خطے میں طاقت کا توازن چاہتا ہے اور پاکستان بھی۔ بھارتی لیڈر شپ میچور ہوتی تو وہ بھی سٹیٹس کو درہم برہم نہ کرتی مگر بھارت کے چہرے سے سیکولرازم کا نقاب ہٹا کر اسے ہندو انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے والی بی جے پی اپنی خود ساختہ عظمت کے خبط میں گرفتار ہوچکی ہے۔ گریٹر انڈیا … شائننگ انڈیا کے پردے میں ایک بدصورت مائنڈ سیٹ ہے۔ بھارت میں رہنا ہے تو ہندو بن کے رہو۔ یہ بھی کہ بھارت علاقے کی سپر پاور ہے۔ اس زعم، سراب اور فریب نظر کو حسین عینک پہنائی ٹرمپ اور اسرائیل نے اور بھارت نے تاریخی حماقت کا ارتکاب کردیا۔ پچھلے سال بھارتی پارلیمینٹ میں کشمیر اور لداخ کا سٹیٹس بدلنے پر قانون سازی ہورہی تھی … بھارت کے ہوم منسٹر تقریر فرمارہے تھے۔ بڑی صراحت، ڈھٹائی اور بے شرمی سے چین اور پاکستان کے علاقوں کو بھارت کا حصہ قرار دے رہے تھے۔ تب سے اب تک بھارت کو کوئی نہ کوئی ٹی وی چینل ہر وقت پاکستان میں شامل گلگت اور بلتستان کو بھی بھارت کا حصہ بنالینے کی بات ضرور کرتا ہے۔ چین کے لیے لداخ … گلگت اور بلتستان کس اہمیت کے حامل ہیں اسے ڈیفنس اور سٹریٹجک سٹڈیز کا کوئی بھی طالب علم آسانی سے بتا سکتا ہے۔ بات زُلف کی نہیں بات رُخسار کی ہے۔ قصہ یہ نہیں کہ LAC حقیقی لائن آف کنٹرول کو چین نے پار کیا یا بھارت نے۔ حکایت یہ بھی نہیں کہ بھارتی کرنل اور اس کے سپاہی کیوں اور کیسے مرے۔ کہانی یہ بھی نہیں کہ بھارت کتنا ڈپریس، ہارا ہوا اور شکست خوردہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی تکبر، خود فریبی، لیڈرشپ کی عاقبت نااندیشی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آہ و بکا، مودی کے ہندوستان کو بند گلی میں لے آئے ہیں جہاں سے ہر راستہ شکست کے دروازوں کی طرف کھلتا ہے۔ وہ دروازے جو شاید پنڈت نہرو نے اپنی ڈپلومیسی سے بند کر رکھے تھے انہیں مودی نے اپنی حماقت سے کھول دیا۔ 5؍ اگست 2019ء کے دن موڈریٹ ہندو بھی حیرت و استعجاب کا شکار تھا۔ چین کے مسکراتے چہرے پر بھی حیرت تھی کہ آپ یکطرفہ طور پر ایسا بھلا کیسے کرسکتے ہیں۔ مگر خطے کے توازن طاقت سے بے خبر تھے تو شاید مودی، ان کی ٹیم اور ان سے بھی زیادہ ان کا ہوم منسٹر امیت شاہ۔ بھارت ہمیشہ مغرب اور امریکہ میں اپنے امیج کی کھاتا ہے، سوفٹ امیج۔ وہ امیج جسے وہ پروموٹ کرتا ہے اپنی فلم کے ذریعے، جوگی گرو مہاراجوں کے ذریعے اور اپنی آرویدک جڑی بوٹیوں کے ذریعے۔ اس جعلی مقبولیت نے بھارت کے منصوبہ سازوں کو بھاری غلط فہمی سے دوچار کردیا۔ اسی سوفٹ امیج کو وہ اپنی ہارڈ پاور میں ڈھالنے کی خواہش کرنے لگے۔ جب چینی قیادت نے اگست 2019ء میں بھارتی اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو مودی غلط فہمی میں اسے اپنی سیاسی فتح تصور کر بیٹھے۔ پھر بھارت نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور سلامتی کونسل کا رکن بننے کا ارادہ کرلیا۔ چین نے ان تمام بھارتی ادائوں کو اگست 2019ء سے مئی 2020ء تک کمال برداشت اور استقامت سے برداشت کیا۔ پھر وہ ہوا کہ بھارت پریشان اور پشیمان ہوگیا اور امریکہ حیران۔ اس وقت چین اپنے نقشے کے مطابق اپنے علاقوں میں ہے اور بھارت اپنے نقشوں کے مطابق حالت غم میں ہے۔مودی، امیت شاہ اور ان کی احمق ٹیم کو چین کے ساتھ تصادم کا راستہ کھولنے سے پہلے برصغیر کے مشہور فکشن رائٹر سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ ضرور پڑھنا چاہیے تھا۔