کیا ہر وہ آدمی بد دیانت، خائن اور چور ہے جو حکومت کا ناقد ہے ؟ صبح دم ا ٹھتے ہی جس جس کا اس با برکت عہد میں بٹتی فیوض و برکات پر اظہار تشکر میں’ نچنے نوں دل نہ کردا ‘ ہو کیا اسے پٹواری کہا جائے گا؟کیا صرف چودھریوں کی ق لیگ اور کراچی کی ایم کیو ایم وہ جماعتیں ہیں جو خالص اللہ کی رضا کے لیے حکومت کی اتحادی بنی ہیں اور ان کے علاوہ ہر وہ جماعت جو اپوزیشن کی صف میں ہے اصل میں خائنوں اور لٹیروں کا ایک ٹولا ہے؟ اور کیا ہر وہ صحافی لفافے کی تلاش میں بھٹکتا ایک گمراہ اور ضمیر فروش انسان ہے جو زرائے کرام کے ہر مطلع پر بغلیں بجاتے ہوئے مکرر مکرر کی صدائیں بلند نہیں کرتا؟تحریک انصاف کے رویے بھلے ان تمام سوالات کا جواب اثبات میں دیتے ہوں لیکن نرگسیت کے گھونسلے سے زمین پر اتر کر دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ علم کی دنیا میں یہ رویہ اجنبی ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ بی این پی مینگل حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ اختر مینگل الگ ہو جائیں اور حکومت کے لیے وجود باقی رکھنا مشکل ہو جائے۔ کل ان کا بیان آیا کہ حکومت گرانے کی کوشش ہوئی تو ہم بچانے نہیں آئیں گے۔چار ماہ میں ہی حلیفوں کے اعصاب چٹخ جائیں یہ معمولی بات نہیں۔ حلیف بھی اختر مینگل اور عمران خان جیسے۔ بلوچستان کے حوالے سے عمران کی حیثیت اس اعتبار سے منفرد ہے کہ بلوچوں کو عمران سے کوئی گلہ نہیں۔ وہ چاہیں تو بلوچستان کے حوالے سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ پھر ان حالات میںجب بلوچستان میں ملک دشمن قوتیں سرگرم ہیں اختر مینگل جیسی شخصیت کا وطن واپس آ کر پارلیمانی سیاست کا حصہ بننا بہت خوش آئند اقدام تھا ۔ ایک امید سی پیدا ہوئی۔لیکن محض چار ماہ میں اتنی تلخی؟تجسس پیدا ہوا کہ وجہ کیا ہے۔ میں نے وجہ جاننے کے لیے بی این پی مینگل کے اپنے دوست سینیٹر جناب جہانذیب جمالدینی کو فون کیا۔جہانذیب جمال دینی بہت شائستہ مزاج رکھتے ہیں اور ان چند پارلیمنٹیرینز میں سے ایک ہیں جن کی کوئی واضح نظریاتی سمت ہے اور وہ اس پر یکسو ہیں۔اختر مینگل نے حکومت کے سامنے چھ نکاتی مطالبات رکھے ہوئے ہیں اور ان مطالبات پر حکومتی ٹیم سے گفت و شنید کے لیے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے۔ جہانذیب جمالدینی بی این پی کی اس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس تلخی کی وجہ ان نکات پر حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ ہونا ہے۔اب حقیقت یہ ہے کہ عمران خان سارے کام چھوڑ کر صرف انہی نکات پر کام شروع کر دیں تب بھی ممکن نہیں کہ مہینوں میں ان پر عمل ہو سکے۔یہ ایک طویل کام ہے۔یہی پہلو میں نے جمالدینی صاحب کے سامنے رکھا کہ جب یہ کام مہینوں میں ہونے والا نہیں تو آپ محض چار ماہ میں اس قدر خفا کیوں ہو گئے۔ وہ کہنے لگے’’ ہمیں بھی اندازہ ہے یہ کام چند مہینوں تو کیا چند سالوں میں بھی ہونے والا نہیں۔ہمارا شکوہ یہ نہیں کہ حکومت نے ہمارے نکات پر عمل نہیں کیا۔ہمارا ناراضی یہ ہے کہ حکومت کا رویہ ہی بچگانہ اور غیر سنجیدہ نہیں۔بی این پی کی کمیٹی کا میں چیئر مین ہوں۔ ایک حکومتی ٹیم ہے جس کے ساتھ ہم مذاکرات کر رہے ہیں۔ حکومت کی غیر سنجیدگی کا عالم ہے کہ چار ماہ میں چار مرتبہ انہوں نے حکومتی ٹیم بدل دی ہے۔آج حکومتی ٹیم میں ایک صاحب ہوتے کل دوسرے صاحب آ جاتے ہیں۔اختر مینگل کو پانچ مرتبہ وزیر اعظم سے ملنے اسلام آباد بلا یا گیا ، ملاقات کا وقت طے کیا گیالیکن ایک بار بھی ملاقات نہ ہو سکی۔ہر دفعہ یہی کہ دیا جاتا کہ وزیر اعظم دستیاب نہیں‘‘۔ یہ بات میرے لیے حیران کن تھی کہ حکومت نے اختر مینگل کے ساتھ یہ’ حسن سلوک‘ کیا ہو اس لیے میں نے وضاحت کے لیے پوچھا’’ سینیٹر صاحب کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اختر مینگل کو پانچ دفعہ وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے کراچی سے اسلام آباد بلایا گیا مگر ایک بار بھی وزیر اعظم سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی‘‘۔ جہانزیب جمالدینی کا جواب تھا : جی ہاں مین یہی کہہ رہا ہوں۔ سینیٹر ستارہ ایاز کی بھی سن لیجیے۔کل ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ترکی کے ڈرامہ ارطغرل پر بات ہونے لگی تو انہوں نے طیب اردوان کی تعریف کی کہ انہوں نے ترک قوم کو احساس تفاخر دیا ہے اور ترک کسی سے مرعوب نہیں ہوتے۔پھر انہوں نے اپنی حکومت کا ایک واقعہ سنایا۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک اعلی سطحی میٹنگ میں دیگر جماعتوں کے لوگ بھی مدعو تھے ، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی تھے اور ان سب کو بریفنگ دی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ جب ہم سب پاکستانی ہیں تو یہ بریفنگ انگریزی میں کیوں دی جا رہی ہے۔ ہم سب کو اردو آتی ہے اس لیے اردو میں بریفنگ دی جائے۔ ’’یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا‘‘۔ ’’میں نے اچھا کیا آصف ، لیکن ابھی سن تو لیں جواب میں کیا کہا گیا‘‘۔ ’’کیا کہا گیا‘‘؟ ’’فیصل واڈا نے کہا: یہاں ایسے لوگ آ جاتے ہیں جنہیں انگریزی کی الف ب بھی نہیں آتی تو ان کے لیے میں اردو میں بھی سمجھا دیتا ہوں‘‘۔ ’’یہ فیصل واڈا نے بھری محفل میں کہا‘‘؟۔ بے یقینی سے میں نے سوال کیا۔ ’’جی ہاں ، بھری محفل میں کہا۔ جس پر میں نے انہیں بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے انگریزی میں الف ب ہوتی ہی نہیںہے۔ دوسری بات یہ ہے اردو ہماری قومی زبان ہے اس میں بات کرنا جہالت یا ان پڑھ ہونے کی علامت نہیں ۔تیسری بات یہ ہے کہ یہاں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں سب کو اردو آتی ہے ۔ اس لیے انگریزی بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔جب انگریزی بولنے کی ضرورت ہوئی اس روز ہم سب انگریزی میں ہی بات کر لیں گے‘‘۔ ستارہ ایاز تو بات کر کے چلی گئیں لیکن میں ابھی تک حیرت سے سوچ رہا ہوں کہ فیصل واڈا نے کس طرح سب کے سامنے یہ جواب دے دیا؟ بات کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور ہمارے سماج میں مروت اور حفظ مراتب بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔کیا نئے پاکستان میں ساری قدریں متروک ہو چکیں۔کیا ایک ہی فن سکہ رائج الوقت ہے کہ سب کی توہین کیے جائو اور بار بار کیے جائو؟ کیا ان رویوں کے ساتھ عمران خان کی ٹیم سرخرو ہو سکے گی؟ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا : سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ سوچ رہا ہوںکیا نئے پاکستان کی سیاست کی آنکھ سے مروت بھی اٹھ گئی؟