اسلامی نظریاتی کونسل نے ٹرانس جینڈر بل کی کئی شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے حقیقی طور پر مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔بلا شبہ اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ دلیل بڑی مستحکم ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کے بارے میں ٹرانس جینڈرز پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ کا جائزہ لینے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل‘ علماء ،ماہرین قانون وطب پر مشتمل کمیٹی قائم کی جانی چاہیے جو ٹرانس جینڈرز کے بارے میں موجودہ قانون کا تفصیلی جائزہ لے کر اس مسئلے کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جامع قانون سازی کرے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کسی فرد واحد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ اس کے کہنے یا محض اس کے باطنی احساس کی بنیاد پر اسے ٹرانس جینڈر یعنی مرد کی بجائے عورت اور عورت کی بجائے مرد قرار دیدیا جائے اور نہ کسی ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے حساس معاملہ پر اس کے نفسیاتی‘قانونی اور طبی پہلوئوں کا جائزہ لئے بغیر کسی کو ٹرانس جینڈر کا سرٹیفکیٹ جاری کر دے۔ٹرانس جینڈرز کا مسئلہ محض شرعی پہلو ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ ا یسا کوئی بھی فیصلہ قانونی یا نفسیاتی اور طبی بنیاد وں پرکیا جائے۔اس سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ اس قسم کے قوانین بنانے سے پہلے انہیں قوم کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کو زیر بحث لا کر قانون سازی کی جائے تاکہ بعد میں نئے معاشرتی مسائل اور پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔