نسیم احمد آہیر جوہر آباد کی جان ہیں۔ جوہر آباد ضلع خوشاب کا صدر مقام اور سرگودھا ڈویژن کا حصہ ہے۔ جوہر آباد ایک جدید طرز کا شہر ہے جس کی سڑکیں کشادہ اور دونوں جانب خوبصورت سبز راہداریاں ہیں۔ فی الحقیقت جوہر آباد اور شاہ پور صدر قدیم و جدید تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ نسیم احمد آہیر کی شخصیت بھی جدید و قدیم کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستان کی سیاسی و حکومتی تاریخ نامکمل ہے۔ انہوں نے 1970ء اور 1980 کے عشروں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی عملی سیاست کا آغاز پی پی پی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا اور سیاسی وابستگی بلکہ وفاداری کا سفر جنرل ضیاء الحق کی محبت اور رفاقت کے بعد تاحال جاری ہے۔ نسیم احمد آہیر نے جوہر آباد‘ خوشاب‘ بھلوال‘ سرگودھا‘ سون سکیسر کی سیاست میں انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں۔ 1964ء میں سرگودھا میونسپلٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ نسیم احمد آہیر کے آبائو اجداد 1857ء کی جنگ آزادی کی بظاہر ناکامی کے بعد جوہر آباد میں آ گئے۔ ان کا آبائی علاقہ گڑ گائوں ہے۔ انہوں نے جوہر آباد میں زمین خرید کر آہیر آباد بسایا۔ یہ انگریز سرکار کے انعام یافتہ زمیندار نہیں ہیں۔ یہ آزادی کے متوالے‘ امت کے رکھوالے اور وطن عزیز کے شیدائی ہیں۔ 1945-46ء کے الیکشن میں ان کے دادا امیر خان کا ڈیرہ اور گھر مسلم لیگ کی انتخابی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان میں پنجاب کا کلیدی کردار تھا اور پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم(اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کہا جاتا تھا) نواب خضر حیات ٹوانہ برطانوی ہندی سرکار کے ا نتہائی وفادار اور طاقتور حلیف تھے۔ خضر حیات ٹوانہ کا علاقہ اور حلقہ خوشاب تھا۔ قائداعظم کا پیغام تھا کہ خضر حیات ٹوانہ کو اپنے حلقہ خوشاب کی انتخابی سرگرمیوں میں اس قدر مصروف کر دیا جائے کہ وزیراعظم خضر حیات ٹوانہ کو متحدہ پنجاب میں بھرپور انتخابی مہم چلانے کے لیے وقت نہ مل سکے۔ خوشاب شہر مسلم لیگی تھا۔ مضافات یونینسٹ تھے اور آہیر برادری کے لوگ مسلم لیگ کے حامی تھے۔ انہوں نے قائداعظم کے فرمان کے مطابق جہانیاں آباد نے ممتاز دولتانہ کو مسلم لیگ کا امیدوار بنایا۔ دولتانہ نے خوشاب کے کیمپنگ گرائونڈ کو مسلم لیگ کا مرکزی دفتر بنایا جو ہندو SDM مسٹر کمیلا نے سرکاری زمین کہہ کر فوری خالی کرا لیا ۔ اس کے بعد نسیم احمد آہیر کے دادا نے اپنے ڈیرے اور گھروں کو مسلم لیگ کی انتخابی مہم کا صدر دفتر بنا لیا۔ نسیم احمد آہیر سیاست و حکومت میں طاقتور حکمرانی کے حامی ہیں۔ ان کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ذاتی مراسم تھے۔ اور یہ 1970‘ 1977ء اور 1985ء کے عام الیکشن میں پی پی پی کے امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے جبکہ 1985ء کا الیکشن غیر جماعتی تھا مگر ان کو الیکشن میں پی پی پی کی حمایت حاصل تھی۔ نسیم احمد آہیر ڈرنے‘ دبنے اور جھکنے والی شخصیت نہیں ۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے سخت مخالف تھے۔ ضیائی مارشل لاء میں پی پی پی کے ساتھ وفاداری کے سبب طویل جیل بھی کاٹی مگر معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے پی پی پی کی سیاست کو اس وقت خیر آباد کہا جب بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو نے وطن عزیز کے خلاف مسلح دہشت گرد تنظیم الذوالفقار بنائی اور پی آئی اے کا جہاز اغوا کر کے پاکستان دشمن افغان حکومت کی حمایت سے کابل لے گئے اور ایک میجر کو مار کر جہاز سے گرایا اور اس کو اپنی جیت قرار دیا۔ اس سانحہ کے بعد نسیم احمد آہیر کی جنرل ضیاء الحق سے قربت‘ صحبت‘ یکجہتی اور وفاداری کے سفر کا آغاز ہوا ۔ ضیاء الحق کے دور میں وفاقی وزیر تعلیم‘ داخلہ اور کئی دیگر وزارتوں سے وابستہ رہے۔ ان کا حافظہ قوی ہے۔ ضیاء الحق دور کے اہم واقعات کے چشم دید گواہ بلکہ حصہ دار رہے ہیں۔ اس دوران انہیں ضیاء الحق کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور پھر یہ ضیاء الحق کے ہو رہے۔ محمد خان جونیجو کی معزولی کے بعد جنرل ضیاء الحق انہیں وزیراعظم پاکستان بنانا چاہتے تھے مگر انہوں نے ضیاء الحق کو تجویز دی کہ ایک سندھی وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی ہے‘ دوسرا معزول کر دیا گیا‘ دریںصورت پنجاب کی بجائے صوبہ سندھ سے وزیراعظم لینا مناسب تر ہوگیا۔ ضیاء الحق نے ان کی تجویز سلیم کر لی۔ نسیم احمد آہیر کی شخصیت انتہالی دلچسپ اور پرلطف ہے۔ یہ مہمان نواز ہیں۔ سچے اور کھرے انسان اور مسلمان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زندگی دو کام کبھی نہیں چھوڑے‘ پہلا یہ کہ فقط اللہ ہی میرارب ہے اور دوسرا اس کی بے شمار نعمتوں کی شکرگزاری میں کبھی کوتاہی اور تاخیر نہیں کی۔ ان کے یارانے پرانے بھی ہیں اورنئے بھی۔ یہ آج بھی قومی‘ ملی‘ سیاسی‘ سماجی اور حکومتی معاملات سے بھرپور آگاہی رکھتے ہیں‘ ان کی شخصیت‘ کردار اور حال نے راقم کو بہت متاثر کیا۔ یہ خاصے عمرسیدہ بزرگ ہیں مگر آفرین ان کی بیٹی مریم اور بیٹے علی کے لیے جو اس بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت ایک عاشق کی طرح کرتے ہیں۔ قرآن کی یہ آیت صادق آتی ہے کہ اپنے والدین کا خیال اسی طرح رکھو جیسے انہوں نے تمہارا خیال بچپن میں رکھا۔ ان کے ایک پرانے ملازم ملے جو کچھ عرصہ سعودی عرب ملازمت کے لیے چلے گئے اور واپس آ کر کہا کہ نوکری کرنا ہے تو نسیم احمد آہیر کے ساتھ کرنا ہے وگرنہ نہیں۔ انہوں نے فوراً اسے ملازمت دے دی۔ اسی ملازم نے بتایا کہ سعودی عرب میں کار ڈرائیونگ کے دوران ایک ایف بی آئی امریکی افسر ڈالرز سے بھرا بریف کیس گاڑی میں چھوڑ گیا۔ انہوں نے اسے واپس کردیا۔ امریکی ملازم کی امانت‘ دیانت اورصداقت سے متاثر ہوا۔ امریکی شہریت کے علاوہ ڈالرز دینا چاہے جو انہوں نے انکار کردیا۔ یہی حال نسیم احمد آہیر کا ہے کہ انہیں اپنا دین اور وطن ہر حال میں عزیز ہے۔ ان کی پہلی اور آخری محبت پاکستان ہے اور پاکستان ہی ان کی جان ہے۔