پاکستان کے بائیس کروڑ عوام میںاگر مسلمانوں سے یہ رائے لی جائے کہ تم کوئی ایسا سکول، کالج یا یونیورسٹی چاہتے ہو جہاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی ارفع تعلیم بھی دی جائے تو چند مغرب زدہ، سیکولر، لبرل، بے روح دانشوروں اور مادر پدر آزاد تہذیب کے دلدادہ مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ کر کوئی بھی اس کی مخالفت نہ کرے۔ یہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ آج کی جدید دنیا میںمقبولیت کو ناپنا بہت آسان ہے۔ اخبارات پڑھنے والوں میں سے نوے فیصد قارئین انٹرنیٹ پر اپنی اخباری پیاس بجھاتے ہیں۔ اگر آپ نے کسی بھی دانشور کی مقبولیت دیکھنا ہو تو، آپ انٹرنیٹ کا ایک چکر (Surfing) لگائیں، آپ کو خود بخود اندازہ ہو جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ کونسا کالم نگار کتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے، اور کس شخص کا شو زیادہ شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر مقبولیت کے پیمانے بالکل ایسے ہیں، جیسے گھروں کے باہر بجلی اور گیس کے میٹر لگے ہوتے ہیں۔ جتنے لوگ کسی شخص کو سنیں گے یا کسی کالم نگار کو پڑھیں گے، ان میٹروں میں اتنے ہی نمبروں کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ مذہبی جذبات اور اخلاقی معیارات سے کھیلنے والے یہ چند دانشور وہ ہیں جن کے پڑھنے والوں یا سننے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ یوں تو یہ طبقہ قیام پاکستان ہی سے اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہا ہے۔ اس لئے کہ دنیا کے نقشے پر اسلام کے نام پر بننے والے ملک کا تصور ہی ان کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی تھا۔ یہ دن رات اس کے خاتمے کی خواہش کرتے ہیں، اور دل میں کم از کم اسے مذہب سے دور ایک سیکولر لبرل ملک دیکھنے کی امیدیں ضرور پالتے رہتے ہیں۔ یہ چند گنے چنے دانشور میڈیا پر ایک عالمی ایجنڈے کے تحت زیادہ دکھائے اور زیادہ چھاپے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ میڈیا کی رگوں میں عالمی کارپوریٹ سرمائے کے اشتہاروں کا زہر خون کی طرح دوڑتا ہے۔ میڈیا کے عالمی ایجنڈے کے علمبردار ان چند لکھنے والوں کو ا س لیے اچھالا جاتا ہے تاکہ ان کا کہا ہوا بظاہر عوام کی رائے نظر آئے۔ مشہور مصنف نوم چومسکی (Noam Chomsky) نے اپنی کتاب ’’کاریگری سے عوام کو راضی کرنا‘‘ (Manufacturing Consent) میں اس سارے طریقِ کار کا پول کھولا ہے۔ میڈیا کیسے چند لکھنے اور تبصرہ کرنے والوں کو ایک ایجنڈے کے تحت کچھ لکھنے اور بولنے کے لیے راضی کرتا ہے۔ یہ دانشور بھی میڈیا کے ایجنڈے کے مطابق خیالات رکھتے ہیں یا پھر خود کو اس میں ڈھال لیتے ہیں۔ اس کیفیت کو عرفِ عام میں ’’ٹیون‘‘ (Tune) ہو جانا کہتے ہیں۔ پھر ان سدھائے ہوئے دانشوروں کے مضامین اور گفتگو، پہلے علاقائی اور پھر دنیا بھر کے میڈیا پر یوں پیش کی جاتی ہے کہ جیسے یہی اس ملک کے عوام کی آواز ہے، جسے دقیا نوسی حکومتوں نے دبا کر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس میڈیا کارگردگی کی بہترین مثال ملالہ یوسف زئی ہے جسے شاید سوات میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا، مگر میڈیا کی کاریگری نے اسے نوبل انعام کی سیڑھی پر پہنچادیا، اور آج مغرب کا عام آدمی بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کی مظلوم عورتوں کی آواز ملالہ ہے۔ یہ ہے وہ دھوکہ اور فریب کی کاریگری جس سے میڈیا عوامی رائے تخلیق کرتا ہے۔ اسی میڈیا کے مطابق صوفی محمد اگر پاکستان کے آئین کی کچھ شقوں کو غیر اسلامی کہتا ہے، تو وہ قابل گردن زدنی ہے۔ لیکن پاکستان کے آئین کی کچھ شقوں کو ایک جدید دانشور ’’غیر انسانی‘‘ اور ’’غیر مہذب‘‘ کہتا ہے تو علاقائی اور عالمی میڈیا اس دانشور کو آزادی اور حریت کا علمبردار بتاتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 31کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن و سنت میں متعین ہیں ترتیب دے سکیں‘‘، اسی آرٹیکل کی جز (ب) میں کہا گیا ہے کہ ’’ریاست قرآن کی لازمی تعلیم کیلئے سہولیات فراہم کرے‘‘۔ لیکن جیسے ہی گورنر پنجاب چودھری سرور نے بحیثیت چانسلر تمام یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کو آئینِ پاکستان کی روح کے مطابق لازمی قرار دیا تو یہی ’’مخصوص چند ایک‘‘ ایسے تڑپے جیسے ان کے جلے دل کے پھپھولوں میں کانٹا چبھویا گیا ہو۔ ان میں ایک اردو کے کالم نگار ہیں جو کبھی انگریزی میں لکھا کرتے تھے۔ یہ دنیا کے واحد دانشور ہیں جو دنیا بھر سے انوکھے خیالات رکھتے ہیں۔ دنیا شراب نوشی کے نقصانات پر اتنی سنجیدہ ہو چکی ہے کہ اسے بیماری سمجھ کر میڈیکل سائنس کی تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور شراب نوشی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئیے دن رات ادویات ایجاد ہو رہی ہیں، مگر یہ صاحب اپنے کالموں میں شراب نوشی کے آداب پر گفتگو کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے ڈاکٹر اس نشے کی عادت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ کیسے ایک سگریٹ کے کش سے انسان ہیروئن تک جا پہنچتا ہے اور کیسے ایک گھونٹ شراب سے بندہ عادی شرابی (Alcoholic) بن جاتا ہے۔ لیکن موصوف اس کی جانب رغبت دلانے کے لیے کالموں میں ایک سماں باندھتے ہیں۔ انہوں نے گورنر چودھری سرور کی جانب سے قرآنی تعلیم کا تمسخراڑاتے ہوئے اقبال اور قائدِاعظم کی مغربی یونیورسٹیوں کا حوالہ دیا کہ جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ کاش وہ یہ جانتے کہ اقبال اور قائدِاعظم دونوں نے ان مغربی یونیورسٹیوں کی تعلیم کو مسترد کرتے ہوئے قرآن کی تعلیمات کو اپنا آئیڈیل بنایا۔ اقبال کا تو ہر شعر کسی ایک قرآنی آیت کی تفسیر ہے اور یہ شعر تو اعلان کرتا ہے کہ گرتومی خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جزبرقرآن زیستن فرمایا، ’’اگر تو مسلمان کی زندگی گذارنا چاہتا ہے تو یہ قرآن کے بغیر ناممکن ہے‘‘۔ قائدِاعظم سے زیادہ مغربی تہذیب و تعلیم کا ناقد تو آج تک برصغیر میں پیدا ہی نہیں ہو سکا۔ اس قائدِاعظم کی سٹیٹ بنک کے افتتاح پر کی گئی زندگی کی آخری تقریر مغربی تہذیب کا نوحہ ہے جس میں وہ پکار کر کہتے ہیں کہ، ’’مغربی تہذیب نے اس قدر گند ڈالا ہے کہ اب اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے‘‘۔باقی دو دانشور وہ ہیں جنہوں نے انگریزی اخبارات میں اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے قرآن کی تعلیم کے خلاف مضامین لکھ کر آئین کا مذاق اڑایا۔ ان میں ایک تو پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے اکثر سربراہ بھی بنتے رہتے ہیں۔ ان کی بددیانتی کا عالم یہ ہے کہ منو بھائی کی تعزیتی تقریب میں جب انہوں نے ذوق کا یہ شعر پڑھا جس کا مصرعہ یہ تھا، ’’پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا‘‘ تو اس میں سے موصوف جان بوجھ کر مسجد کا لفظ نہ بولے۔ جن لوگوں کا اسلام سے بغض و عناد کا عالم یہ ہو اور جن کی اخلاقی بددیانتی اتنی گہری ہو کہ انہیں شعر میں بھی مسجد کا لفظ بولنا گوارا نہ ہو، ایسے لوگوں سے کیا گلہ۔ تیسرے صاحب نے بھی انگریزی میں اپنی درفنطنیاں چھوڑی ہیں۔ والدین نے ان کا نام تو غازی رکھا تھا، لیکن جوان ہوئے تو شہیدِ تہذیبِ مغرب ہو گئے۔ ان سب میں سے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ ایسا کیوں نہ کیا جائے، بس ایک ایجنڈے کے مطابق لکھنا تھا لکھ دیا۔ قرآن پاک کی براہِ راست تعلیم کا خوف اسقدر ہے کہ دلوں کی جلن قلم کی سیاہی میں صاف نظر آتی ہے۔ یہ میرے ملک میں چند ہزار دین بیزار لوگوں کے میڈیا میں نمائندے ہیں۔ آپ ’’میڈیا کی کاریگری‘‘ دیکھیں کہ انہیں عوام کے جذبات کا عکاس بنا کر پیش کیا جارہا ہے مگر تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ معاشرہ جتنا بے سکون، بے چین، مضطرب، پریشان اور بدحال ہوگا، قرآن اتنا ہی دلوں کے چین کے لیے لوگوں میں مقبول ہو گا۔