مری نسل جس ماحول میں پروان چڑھی ہے‘ اس زمانے میں فرانس کی تہذیبی برتری کا بڑا تذکرہ تھا۔ ہر کوئی اس کے گن گاتا تھا۔ پیرس بلا شبہ آرٹ اور فنون لطیفہ کا صدر مقام گنا جاتا تھا۔ ادب میں ہر جگہ فرانسیسی شاعروں اور فکشن رائٹرز کا تذکرہ تھا۔ کہا جاتا تھا شاعری پڑھنا ہے تو فرانسیسی جدت پسندوں کو پڑھوں اور افسانہ پڑھنا ہے تو بس روسی اور فرانسیسی دو زبانوں میں بہ صنف پائی جاتی ہے۔ پھر انقلاب فرانس تو ہمارے گویا درس میں شامل تھا۔ایک ایسا ذہنی انقلاب جس نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ یورپ کو یورپ بنا دیا۔ مذہبی میدان میں تو جرمنی کا لوتھر بازی لے گیا۔ مگر روشن خیالی کے باب میں عمومی طور پر جسے فضیلت حاصل تھی وہ فرانس تھا۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد یورپ کی ترقی بلکہ دنیا کی ترقی اسی کی مرہون منت گنی جاتی تھی۔ پھر ہماری طالب علمی کے زمانے میں ادھر ہم جمہوریت کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور ایوب خاں کی رخصتی کا مطالبہ کر رہے تھے‘ تو ادھر فرانس میں اس تحریک کا آغاز ہو جس نے انسانی فکر کے بہت سے پہلو بدل ڈالے۔ یہ مابعد جدیدیت کی تحریک تھی، یہ سب طلبہ کی اسی تحریک کی پیداوار تھے۔ بس یوں سمجھو فرانس عظیم تھا۔ ان دنوں فرانس کا حکمران بھی جنرل ڈیگال تھا جس کی عظمتوں کی یہ نشانی کیا کم تھی کہ ہمارے ملک میں ایوب خاں کو بانس پر چڑھانے والے اسے ایشیا کا ڈیگال کہتے تھے۔ پھر فکر و فلسفہ کے میدان میں ژاں پال سارتر کا چرچا تھا۔ کوئی ایسا ویسا چرچا۔ سارتر الجزائر کی تحریک آزادی کی حمایت کرتا ہے تو فرانسیسی بہت چڑتے۔کسی نے کہا اسے گرفتار کر لو۔ ڈیگال نے جواب دیا۔ سارتر کو گرفتار کر لوں؟ سارتر تو فرانس ہے۔ کیا میں پورے فرانس کو قید کر دوں۔ اس کے باوجود کئی سوال اٹھتے تھے۔ ہم کہ روسو اور والٹیر کے بہت گرویدہ تھے‘ یہ پوچھا کرتے تھے کہ دنیا بھر کو روشن خیالی کا درس دینے والے خود اتنے بے راہ رو کیوں ہیں۔ چلیے یہ تو بعد کی بات ہے‘ سوچتے تھے کہ انگریز جہاں بھی گیا‘ اس نے وہاں ایک بہت عمدہ گورننس کا نظام دیا‘ اپنی ہر نوآبادی میں بہت کچھ چھوڑ کر گیا۔ آج بھی ہم اپنے نظام آبپاشی‘ریل کے نظام اور انتظامی امور پر انگریز کی گرفت کی تعریف کرتے ہیں۔ مگر فرانس کے بارے میں تاریخ کی متفقہ رائے ہے کہ یہ جہاں جہاں گئے وہاں کا بندوبست تباہ کر کے لوٹے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟کہاں جاتی ہیں ان کی اعلیٰ ثقافتی قدریں۔ضرور کہیں کوئی خرابی یا کجی رہی ہو گی۔ خاص کر جب فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہوا تو یہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوا کہ فرانسیسی ادیبوں کی ایک بڑی تعداد غلامی کی زندگی پرقانع ہو کر مصلحت کا ادب تخلیق کر تی رہی۔ کم از کم یہ کام مجموعی طور پر تو برصغیر کے ادیب نے بھی نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ جنگ کے خاتمے کے بعد جب اتحادی افواج کو فتح ہوئی تو یہاں کے ادیبوں نے جان پکڑی اور ایسے ادیبوں کو برادری باہر کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ادب میں کوئی ایسا مزاحمتی کارنامہ قبضے کے دوران تو نظر نہیں آیا۔ دل بدظن ہوا اور درست ہوا۔ پھر 68کی طلبہ تحریک کے بعد جو نئی آوازیں فرانس سے اٹھیں‘ ان میں قابل تعریف بھی تھیں‘ تاہم ایسی نہ تھیں کہ ان کی عظمتوں کو سلام کیا جاتا۔ ویسے مجھے کیا لینا،میں کون سا فرانسیسی جانتا ہوں۔ سب کچھ تو ہم نے حسن عسکری صاحب جیسے فرانسیسی ادب کے دلدائوں سے سیکھا ہے حتیٰ کہ یہ تنقید بھی۔ فکری طور پر مجھے فرانسیسی سیکولرازم پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے۔ اس لئے نہیں کہ یہ سیکولر ہے‘ بلکہ اس لئے کہ یہ سیکولرازم کا بڑا ہی خراب ماڈل ہے جس نے دنیا میں بڑی خرابی پیدا کی۔ امریکی ماڈل تو بڑا سادہ ہے۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور ہر شخص کو مذہب کی آزادی ہے۔ برطانوی ماڈل اس سے بھی زیادہ بھلے مانس ہے۔ ان کا بادشاہ(یا ملکہ) ان کے کلیسا کے بھی سربراہ ہیں۔ فرانس کا ماڈل بہت عجیب و غریب ہے۔ یہاں تو مذہب ایک طرح سے بہت خراب چیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انقلاب فرانس میں اپنی جنگ کلیسا کے خلاف ہی تو جیتی تھی۔ ایک الجزائری مصنف نے بڑا خوبصورت تجزیہ کیا ہے کہ اسی خاطر وہ راہبائوں کے ہڈ کو برا نہیں کہتے کہ یہ ان کی جیت کی ٹرافی ہے مگر مسلمانوں کے حجاب سے چڑتے ہیں کہ یہ الجزائر میں ان کی شکست کی علامت ہے۔ آخر یہ پوچھا جاتا تھا کہ راہبائوں کی ’’ہڈ‘‘ آپ کو کچھ نہیں کہتی۔ مسلمانوں کا حجاب آپ کو کاٹتا ہے۔ مذہب کے خلاف چلنا ان کا طرۂ امتیاز ہے اور ان کی روشن خیالی کی علامت۔بدقسمتی سے جب ترکی میں انقلاب آیا تو اتاترک کے سامنے بھی یہی یورپی ماڈل تھا اور کچھ اپنوں کی بے وفائی تھی۔ اس لئے ان کے ہاں سیکولرازم کا ایک ایسا مفہوم بنا جو فرانس سے بھی دو قدم آگے تھا۔ یہ تو خدا بھلا کرے طیب اردوان کا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارا نقشہ ہی پلٹ ڈالا۔ سو میں عرض کر رہا تھا کہ فرانس کی روشن خیالی کی گھٹی ہی میں مذہب دشمنی پڑی ہوتی ہے۔ اوپر سے یہ ہو گیا کہ اسے مسلمانوں سے بڑے دکھ ملے۔ سمندر کے اس پار سارا علاقہ ان کے زیر اثر تھا۔ الجزائر کے بارے میں تو وہ کہتے تھے کہ یہ ہماری نوآبادی نہیں‘ یہ فرانس ہے یہ دعویٰ کرنا آسان تھا۔ اسے نبھانا مشکل تھا۔ الجزائر پر قبضے نے انہیں بالآخر مسلمانوں کے خلاف کر دیا حالانکہ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد یورپ میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے وہاں طرح طرح کی تحریکیں اٹھتی ہیں۔ موجودہ صدر بھی اسی پس منظر کی پیداوار ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں انتہا پسند چھا رہے تھے۔ مودی‘ ٹرمپ اور فرانس میں میکغوں۔ مسلمانوں کا دشمن بھی ہے اور بے دین بھی۔اب نئے انتخابات کے لئے اسے یقین ہے کہ مسلمان ووٹ اسے ملیں گے نہیں۔ وہ مسلم مخالف قوتوں کو شہہ دے رہا ہے۔ انہی دنوں شام عراق اور مشرق وسطیٰ کے حالات کے بہت سے لوگوں کو جان بچا کر پناہ کی تلاش پر مجبور کیا۔ ایک پورا بیانیہ اس پناہ گزینی کے خلاف بھی قائم کر دیا گیا۔ یہ یقینا اسلامو فوبیا ہے۔ اس کا آزادی خیال سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہے تو ہالو کاسٹ کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی اجازت دو۔ اس معاشرے کی سارے تضادات آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں۔تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان اس سارے رطب دیابس کو برداشت کریں گے جو ان لوگوں کی ادنیٰ سیاست‘ فکری کجی اور ذہنی بیہودگی کی پیداوار ہے۔ مسلمان اس معاملے میں کسی مقابلے میں نہیں پڑ سکتے۔ اس لئے احتیاط کرتے ہیں‘وگرنہ آپ کا معاشرہ آپ کے لئے جہنم بن جائے۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم اپنے موقف پر ڈٹ جانے کے بجائے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ وگرنہ کسی کی ہمت ہے کہ ان خطوط پر سوچنے تک۔ فرانس یا سکینڈے نیویں ممالک انہی جیسی ذہنی بے راہ روی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ بھول جائیں کہ یہ اس راہ پر آگے چل سکیں گے۔ انسان شاید اب تھوڑا سا مہذب ہو چکا ہے۔ تمہارے اس بیانیے کو کوئی حمائتی نہیں ملے گا۔ ملے گا تو مصلحت کے تحت اور جلد بھاگ جائے گا۔