عشق کیا ہے فقط سحر باریابی ہے اور اس کے بعد جو عمروں کی نیم خوابی ہے میں ایک جھیل کی صورت ہوں آئینے کی طرح کسی کے دم سے یہ باطن بھی ماہتابی ہے بس یونہی بیٹھے بیٹھے میں رومانس کی وادی میں جا نکلا۔رنگ نے سارے اکھاں دے‘پھل تے کسے وی رنگ دے نیئں‘‘ بس اپنی اپنی فوج ہے کیا کریں اگر خود فریبی میں پناہ نہ لیں تو کیا کریں۔ غالب بھی تو گھبرا گیا تھا ’۔تواور آرائش خم کاکل۔ میںاور اندیشہ ہائے دور و دراز‘ سرکھپاتا ہوں کار دنیا میں،میں کہاں اور یہ وبال کہاں‘ مگر صاحب کیا کریں اغماض بھی تو نہیں ہوتا۔ کبوتر بننا بھی اچھا نہیں لگتا۔ بعض اوقات گلے پڑا ڈھول بجانا بھی پڑتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی مسکراتا ہوا لمحہ گدی گدی سی کر جاتا ہے۔ابھی دیکھیے میرے سامنے ایک پوسٹ آ گئی، بات اس نہج پر آ گئی ہے ،یہ پولنگ سٹیشن کا عملہ ہے یا کے ٹو چوٹی سر کرنے والے کوہ پیما ۔ یہ جو ایک ترکش وقت ہے ا بھی اس میں تیر بہت ہی سیں کوئی تیر تم کو نہ آ لگے ،مرے حال دل پہ نہ یوں ہنسو زمینی حقائق واضح ہیں کہ مہنگائی پر مہنگائی لاقانونیت اور ابتری کے علاوہ حکومت کا اپنے کئے ہوئے وعدوں اور دعوئوں پر پورا نہ اترنا، اسکی ہار کی بین دلیل ہے۔ شاید آپ کی نظر اس طرف نہیں جا رہی ہے کہ وہ نوجوان جو خان صاحب کا رومانس لئے ہوئے تھے بری طرح دل برداشتہ ہوئے ہیں۔ ان آرزوئوں سے بھرے ہوتے باصلاحیت طلباء و طالبات کی طرف کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اس جوان خون کے ساتھ وابستہ رہے تھے اور انہیں بہت اہمیت دیتے تھے، ویسے بھی بھٹو نے تعلیم کی طرف توجہ دی، توقع تو عمران خاں سے بھی بہت زیادہ تھی۔ نیچی پرواز میں اڑنا نہیں آتا ہم کو اونچی اڑتے ہیں توجسم سے پر جاتے ہیں وہ دراصل دوسروں کو سمیٹے ہوئے خود بکھر گئے، ۔ ہائے ہائے یہ الیکٹ ا یبلز جو بظاہر لنگر تھے مگر بہت بھاری تھے کہ جہاز کیا کرتا۔ جہاز میں سوراخ بھی تو کر دیے گئے۔ کچھ مزے کی اور رپورٹیں بھی آئی ہیں۔کہتے ہیں 345پولنگ سٹیشنوں پر ٹرن آئوٹ 35فیصد رہا مگر جن پولنگ سٹیشنوں پر دھند کے باعث عملہ نہیں پہنچ سکا ۔وہاں ٹرن آئوٹ 80فیصد رہا ۔ اور دلچسپ امر یہ کہ الیکشن عملے کو دھند میں پولنگ سٹیشن نظر ہی نہیں آئے مگر پولیس نے آخر عملے کو ڈھونڈ لیا۔ بہرحال کیا کیا جائے الیکشنوں میں یہ ہوتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان اور عثمان ڈار مسلسل رانا ثناء اللہ کے خلاف بولتے رہے کہ وہ الیکشن کے حالات خراب کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سے پی ٹی آئی کی دھونس اور دھاندلی پر شور مچتا رہا۔عطا تارڑ نے جعلی ووٹوں کا تھیلا بھی پکڑ لیا ۔ایک ایس ایچ او بھی لوگوں کے ہاتھ لگ گیا۔ بس یہی تو الیکشن کی رونق بھی رہے۔ پی ٹی آئی کے حالات سچ مچ خراب ہو گئے ہیں ان کو اپنی بقا کے لئے کچھ تو کرنا پڑے گا کہ دامان خیال یار چھوٹا جا ئے ہے مجھ سے۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ اپوزیشن سینٹ کے الیکشن میں ہمارے لوگ خریدنا چاہتی ہے تو یہ کیسی جمہوریت ہے تو جناب یہ ویسی ہی جمہوریت ہے آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے خیر ایسی کوئی بات نہیں یہ لوگ بڑے عرصے سے گالیاں کھاتے آئے ہیں، یہ سارے گھوڑے پہلے بھی کبھی چھانگا مانگا اور کبھی مری کے جنگلوں میں باندھے جاتے رہے ہیں اور اب نوٹوں سے بھرے بیگ ہیں۔ تب بریف کیس چلتے تھے سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ خان جیسے مہا دیانتدار اور ایماندار آدمی اور اصولی شخص کی موجودگی میں لوگ نواز شریف یا مریم نواز کی طرف کیوں لپک رہے ہیں۔ ضمنی الیکشنز نے تو باقاعدہ خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے خان صاحب کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے لوگوں نے اخلاقیات بھی تباہ کیں ان اخلاقیات کی وضاحت ضرور کرنا چاہیے تھی۔ سچ بولنے والے لوگ آپ کے ساتھ دو گام نہیں چل سکے ۔امجد اسلام امجد نے کہا تھا: دل کے دریا کو کسی روز اترجانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے سارا میڈیا آپ کا دیوانہ اور پرستار تھا۔ اب لمحہ موجود کی سیاست سب کچھ زبان حال سے بتا رہی ہے کہ جھوٹ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ زبان خلق کون پکڑے گا ۔ ابھی الیکشن پر ایک ننھی سی پوسٹ سامنے آئی کہ بکسے تو بکسے تھے عملہ بھی نہ چھوڑا ہم نے۔ غائب کرنے والے سمجھدار تھے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری عملہ کیا۔ پورا الیکشن بھی ہائی جیک ہوتا ہے بس اللہ ہی ہے کہ کسی کو ہدایت دے دے ۔یا کسی کی دل میں رحم ڈال دے باقی ہمارا حال بہت پتلا ہے۔ خدا کے لئے سوچو کہ آخر خلقت کیوں ڈاکوئوں اور چوروں کے ساتھ آن کھڑی ہوتی ہے۔ اپنے دوست عدیم ہاشمی کا شعر یہاں برمحل لگتا ہے: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر