عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ دربارۂ پاکستان ایمانداری محب وطن حلقوں کو چھوڑ کر باقی سب جگہ زیر بحث ہے۔ رپورٹ میں ہے کہ اس سال بھی پاکستان میں کرپشن گزشتہ برس کی نسبت اور بڑھ گئی۔ اس سال سے مراد 2020ء کا ہے جو گزشتہ ماہ ختم ہوا۔ اس سال پاکستان کی کرپشن رینکنگ سال گزشتہ کے مقابلے میں 4پوائنٹ بڑھی اور وہ 120پر آ گیا۔2019ء میں وہ 120نمبر پر تھا اور اس سے پچھلے سال 117نمبر پر۔ یعنی پچھلے سال اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں رینکنگ 3فیصد بڑھی ،تو اس سال اس شرح میں ایک کا اور اضافہ ہو گیا۔ نواز شریف کے دور میں یہ رینکنگ سال 2016ء کے لئے 116نمبر پر تھی۔ گویا ’’اپ ورلڈ رجحان‘‘ چل رہا ہے۔ اگلے سال مزید’’مثبت نتائج‘‘ کی یقینی توقع ہے۔ ظاہر ہے معاملہ آگے کو یا اوپر کو بڑھ رہا ہے۔ نیچے یا پیچھے تو نہیں جا رہا۔ پیچھے تو افغانستان گیا ہے جس کی رینکنگ کم ہو گئی ہے اور اب اس کی صحت پاکستان سے بہتر ہے۔اس صورتحال پر کئی تبصرے کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ سب ماضی کی حکومت کی وجہ سے ہوا، جس نے 1980ء کی دہائی میں لندن میں مبلغ سات کروڑ روپے کے فلیٹ چوری کی کمائی سے بنا لئے۔ کچھ اور تبصرے بھی ہو سکتے ہیں، فساد خلق جن کو لکھنے سے مانع ہے۔چنانچہ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں اوپر کرپٹ بیٹھے تھے‘ اس لئے کرپشن کی رینکنگ کم ہوتی گئی۔ پھر ایماندار آ گئے اور کرپشن ریٹنگ میں 4+3برابر سات درجے کا اضافہ ہو گیا۔(الٹ حساب سے کمی ہو گئی) ٭٭٭٭ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ سے تین چار دن پہلے کسی ٹی وی چینل پر حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے کی گفتگو نشر ہوئی۔ فرمایا ‘ ہمارے دور میں کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں اتنی کرپشن نہیں ہوئی۔موصوف کے بیان پر مذکورہ ترمیم شدہ اصول کا اطلاق کیا جائے تو پورا فقرہ یوں ہو جائے گا کہ پاکستان میں اتنی کرپشن آج تک نہیں ہوئی جتنی اب ہو رہی ہے ۔ ٭٭٭٭ اوپر ایماندار بیٹھے ہوں تو نیچے جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ثبوت کے طور پر پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور اتحادی حکمران جماعت قاف لیگ کے رہنما پرویز الٰہی نے ایوان میں کہا کہ اپنی تمام سیاسی زندگی میں بدامنی اور جرائم میں اتنا اضافہ کبھی نہ دیکھا۔ ایوان کو بتایا گیا کہ اب تو ڈاکو 20‘20کے جتھے میں آتے ہیں اور کروڑوں لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ سپیکر نے کہا‘ کوئی پوچھنے والا نہیں‘ آخر حکومت کر کیا رہی ہے؟ ٭٭٭٭ مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات بلکہ سوال۔ تو عرض ہے کہ حکومت بہت کچھ کر رہی ہے۔ صبح سے شام تک بیانات دے رہی ہے۔ باہر سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لینے کا عزم دہرا رہی ہے۔این آر او نہ دینے کی ڈفلی اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا طنبورہ بجا رہی ہے۔بعض ارکان کے زمینوں پر ن لیگ کے بقول ’’حلال‘‘قبضے چھڑوا رہی ہے۔اس کی اے ٹی ایم مشینیں ‘تیل‘ آٹے ‘پٹرول ‘ گیس‘ دوائوں کی مد میں حق حلال کے ’’بلین‘‘ کما رہے ہیں۔ بلین ٹری سونامی اور پشاور میٹرومیں اربوں کھربوں کے کمال دکھا رہے ہیں۔(سردست ایک اچھا کام ہوا جو کرپٹ لوگوں کے زمانے میں آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدے ہوئے تھے انھیں دوبارہ کم نرخ پر لایا گیا ہے )۔ ٭٭٭٭ ماضی بعید کی بات ہے کسی نے کہا تھا‘ کرپشن 90روز میں ختم کر دوں گا۔ کس نے کہا تھا‘ یہ یاد نہیں آ رہا۔ دراصل یہ دور اتنی تیز رفتاری اور تیز گفتاری کا ہے کہ گزرے کل کی بات یاد نہیں رہتی۔ گزرا برس تو ماضی بعید بن جاتا ہے اور اس سے بھی پچھلا سال ماضی بعید ترین۔ ایسے میں کسی کو کچھ یاد نہیں کہ کس نے کب کیا کہا تھا۔ خود کہنے والے کو یاد نہیں‘دوسروں کا تو مذکور ہی کیا۔ اب بھلا کسے یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ پہلے کس نے کہا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دوں گا‘ پچاس لاکھ گھر بنائوں گا۔ اربوں کھربوں روپے لوٹ مار کے باہر سے لائوں گا‘کسی سے قرضہ نہیں لوں گا‘ قرضہ لینے کی نوبت آئی تو خودکشی کر لوں گا۔ ایسا ماحول بنائوں گا کہ باہر سے لوگ نوکریاں لینے کے لئے قطاریں باندھ کر آئیں گے۔ صدر ‘وزیر اعظم‘ گورنر ہائوسوں کو یونیورسٹیاں بنادوں گا‘ہالینڈ کی طرح اپنے دفتر بائیسکل پر جائوں گا‘ پروٹوکول ختم کر دوں گا‘ بجلی گیس پر ٹیکس ڈکیتی ہیں‘ یہ ڈکیتی ختم کر دوں گا۔360ڈیم بنائوں گا وغیرہ وغیرہ۔ہمارے محلے میں بدقسمتی سے سبھی بے ایمان چور ڈاکو لوگ رہتے ہیں‘ محض ایک گھر کسی ایماندار کا ہے۔ ان اکلوتے ایماندار محلے دار سے بات چیت میں ان سے پوچھا کہ یہ باتیں کس نے کہی تھیں۔ خدا جانے بھڑک اٹھے‘ گالیوں کا سونامی منہ سے ابل پڑا اور یہ محض ایک نہیں‘ ایمانداروں کی پارٹی میں جس کسی سے بھی ایسا سوال کیا جائے‘ اگلے ہی لمحے بھلے مانس سے بھڑمانس بن جاتا ہے۔ براہ کرم بھڑمانس کو WEREWOLFکا ترجمہ مت سمجھئے‘بھڑ سے مراد لڑنے بھڑنے سے ہے۔ آپ کو بھڑمانس کہنا پسند نہ ہو تو کوئی بات نہیں‘ ان ایماندار بھلے مانسوں کو جھگڑ مانس کہہ لیجیے۔ ٭٭٭٭ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے نئی اصول سازی (بروزن قانون سازی)کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مثلاً یہی اصول دیکھ لیجیے‘بڑی آسانی سے تشکیل دیا جا سکتا ہے کہ جس حکومت میں کرپشن کم ہو جائے‘ وہ کرپٹ چور ڈاکو وغیرہ وغیرہ ہوتی ہے اور جو حکومت کرپشن میں دن دوگنی رات چوگنی کے حساب سے اضافے کرے‘ وہ ایماندار‘صادق اور امین ہوتی ہے۔ جیسے ابھی ابھی وزیر تعلیم نے فرمایا‘ عمران خاں کی دیانت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔قصہ پاک۔