عورت مارچ تو ہو گیا سیاستدانوں کی طرف سے مارچ میں مارچ کے دعوے رات کی بات ثابت ہوئے ؎ رات کی بات کا مذکور ہی کیا چھوڑیے رات گئی بات گئی تحریک انصاف کی حکومت پہلے سے زیادہ پُر اعتماد‘ مطمئن ہے‘ پیپلز پارٹی اپنے معاملات سلجھانے میں منہمک اور مسلم لیگ (ن) داخلی انتشار پر قابو پانے میں مشغول۔ منگل کے روز مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پہلی بار ارکان پارلیمنٹ نے اپنی قیادت پر تنقید کی اور میاں شہباز شریف سے وطن واپسی کا مطالبہ کیا۔ بعض تجزیہ کار اور اینکر ہمیں دو تین ماہ سے مسلسل یہ اطلاع دے رہے تھے کہ شریف خاندان کے معاملات اسٹیبلشمنٹ سے طے پا گئے ہیں‘ وہ منتخب حکومت کی آئینی و قانونی اطاعت اور فرمانبرداری سے دستبردار‘سراسرغیر جانبدار ہے‘ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی صرف مرکز ہی نہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بھی عمران خان اور عثمان بزدار سے نالاں ہیں‘ مہنگائی و بے روزگاری کی وجہ سے وہ اپنے ووٹروں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں‘ مقتدر حلقے شریف خاندان اور مسلم لیگی قیادت کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ آپ ہماری خطائیں معاف کر کے حکومت تبدیل کریں ‘اقتدار سنبھالیں اور لوٹ مار‘ بدانتظامی اور اقربا پروری کا سلسلہ وہاں سے شروع کریں جہاں میاں نواز شریف اور شاہد خاقان نے ایوان وزیر اعظم کو خیر باد کہتے ہوئے چھوڑا تھا مگر میاں نواز شریف آمادہ ہیں نہ مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر۔ چند ہفتے تک یہ چورن بیچنے کے بعد نئی درفنطنی چھوڑی گئی کہ میاں شہباز شریف عوام کے پرزور اصرار پر فروری کے دوسرے ہفتے میں لاہور میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے انہیں یہ اجازت دیدی ہے کہ مرکز جائے بھاڑ میں وہ پنجاب کے ستم رسیدہ عوام کی داد رسی اور دستگیری کریں‘ سردار عثمان بزدار کی انتظامی کمزوریوں اور اتحادیوں کے علاوہ اپنے ارکان اسمبلی سے بے اعتنائی کا بھر پور فائدہ اٹھائیں‘ آٹھ دس ارکان کی اکثریت کے ساتھ قائم کمزور حکومت کو دھوبی پٹکا لگائیں اور 1988ء کی یاد تازہ کردیں جب پنجاب حکومت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو فیض آباد تک محدود کر دیا تھا۔ چودھری برادران تعاون پر آمادہ نہ بھی ہوں تو لوٹے سازی کی دیرینہ روائت‘ صلاحیت اور تجربے کو بروئے کار لا کر تخت پنجاب کو تحریک انصاف سے بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔ فروری مگر گزر گیا‘ مارچ کا دوسرا ہفتہ شروع ہے اور مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے درخواست کر رہی ہے کہ ’’حضور!پارٹی کو سنبھالنا شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف کے بس کی بات نہیں‘ ہمارا اور عوام کا کہا سنا معاف کیجیے اور وطن واپس آ کر اسے بکھرنے سے بچائیے‘‘۔ پنجاب میں چھ سات ارکان اسمبلی کی وزیر اعلیٰ بزدار سے ملاقات اور مزید دس گیارہ ارکان کی ناراضی کی اطلاعات سے پریشان قیادت کو قومی اسمبلی ‘سینٹ میں فلور کراسنگ کا اندیشہ ہے کہ حکومت وقت کی خوشنودی کے ساتھ فنڈز انہیں بھی درکار ہیں‘ پنجاب اسمبلی کے رکن نشاط ڈاھا نے گزشتہ روز اپنے جیسے ارکان اسمبلی کے جذبات کی یہ کہہ کرترجمانی کی کہ شریف خاندان خود تو بیرون ملک سیر سپاٹے میں مصروف ہے‘ مریم نواز جاتی عمرا میں بھی درشن کرانے کو تیار نہیں مگر ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ مزاحمت کریں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ملک میں تبدیلی کے کوئی آثار ہیں نہ حالات سازگار‘ شریف خاندان اپوزیشن کا کندھا استعمال کرکے اپنے لئے جس قدر مراعات اور سہولتیں حاصل کر سکتا تھا کر چکا‘ زیادہ کی اُسے توقع ہے نہ خواہش۔ اسی بنا پر بلاول بھٹو اور دیگر رہنما اب میاں شہباز شریف کی وطن واپسی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں اور میاں نواز شریف کو بھی سلیکٹڈ کہا جا رہا ہے جس پر مسلم لیگی قیادت احتجاج کے بجائے الفاظ کے مناسب استعمال کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حکومت کے بعض سخت فیصلوں‘ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں ریکارڈ کمی اور دیگر عوامل کی بنا پر مہنگائی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور قومی خزانے میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ روزگار‘ ہائوسنگ اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر خرچ کئے جا سکیں۔ وزیر اعظم نے سرمایہ کاروں کو سود کی شرح میں کمی کی خوش خبری سنا دی جو معیشت کا پہیہ چلانے میں مدد گار ہو گی۔تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اٹھا کر حکومت نے اگر زرعی معیشت کے لئے سستے ڈیزل‘بجلی گھروں کے لئے ارزاں نرخوں پر فرنس و دیگر آئل ‘نقل و حمل‘ بار برداری پٹرول اور صنعتوں کے لئے سستی بجلی کا اہتمام کر دیا‘ مہنگائی کے ستائے عوام کی اشک شوئی ہونے لگی تو اپوزیشن اور اس کے ہمنوا میڈیا کا مخالفانہ پروپیگنڈا اپنی موت آپ مر جائے گا۔ مہنگائی کے علاوہ‘ موجودہ حکومت کے لئے بڑا چیلنج گورننس اور پرفارمنس ہے‘ ذخیرہ اندوز‘ گراں فروش اور سمگلر مافیا اپوزیشن کی بھر پور مدد کر رہا ہے اور حکومت کے کئے کرائے پر پانی پھیرنے میں مشغول‘ بیورو کریسی کو گلہ ہے کہ حکمران اُسے رہنمائی فراہم کرنے کے بجائے خود رہنمائی کے طلب گار ہیں اور بار بار تبادلوں کے علاوہ گدھے گھوڑے میں تمیز نہ ہونے کی وجہ سے اچھے بیورو کریٹس بے یقینی و بے اعتمادی کا شکار ہیں‘ وفاقی اور صوبائی کابینہ ٹیم ورک کے جذبے سے محروم ہے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں‘جوڑ توڑاور کھینچا تانی میں مگن۔ جو وزیر اپنے دفاتر سے زیادہ کوہسار مارکیٹ میں وقت گزارتے‘ گپ شپ‘ لین دین اور شراب و شباب سے دل بہلاتے ہیں اُن سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ پاکستان کو مادر پدر آزاد سیکولر ریاست بنانے کے خواہاں بھی کابینہ کا حصہ ہیں اور نجی محفلوں میں اپنے قائد کے وژن ‘فلسفے اور تقریروں کا مذاق خوب اڑاتے ہیں۔ عمران خان کو اصل خطرہ اپنی ٹیم کے بعض ارکان کی نالائقی اور آستین کے سانپوں سے ہے اپوزیشن تو زبانی اعتراف کئے بغیر یہ طے کر بیٹھی ہے کہ مزید ساڑھے تین سال حکومت کو برداشت کرنا ہے ہلکی پھلکی موسیقی کارکنوں کا جی بہلانے ‘اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے اور پارلیمانی پارٹی کو متحد رکھنے کا حربہ بھی۔ بھارت کا اندرونی خلفشار ‘ افغانستان میں اشرف غنی اور اس کے حلیفوں میں جو تم پزاراور کرونا کی وجہ سے عالمی معیشت میں بگاڑ عمران خان کی حکومت کے لئے فائدہ مند ہے اور بعض لوگ اسے غیبی مدد سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو دوست حکومت کی رخصتی کے لئے نئی تاریخوں کی تلاش میں ہیں وہ خواہشات کے گھوڑوں پر سواری کرنے کے بجائے زمینی حقیقتوں پر گزارا کرنا سیکھیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے پنجاب میں ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچ کر اپنے ساتھیوں کے لئے اُمید کا دروا کر دیا ہے۔ حلقے کے مسائل حل کرنے کا جواز اُن کے پاس موجود ہے اور قیادت کی مصلحت اندیشی و کم ہمتی کسی سے مخفی نہیں‘ بچی کھچی مسلم لیگ کی قیادت کے لئے شاہد خاقان عباسی موزوں انتخاب ہیں کہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے فن میں طاق ہیں اور میاں نواز شریف و مریم نواز شریف کا اعتماد انہیں حاصل۔ باپ بیٹی کا حسن انتخاب نیا لیڈر‘ میاں شہبازشریف کا بیانیہ لے کر کارکنوں‘ ارکان اسمبلی اور فیصلہ ساز قوتوں سے رابطہ کرے تو بھلا کس کو اعتراض ! ’’حسن انتخاب‘‘ ’’بیانیے‘‘ اور ’’قبولیت‘‘ کا خوبصورت ملاپ ع نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں