معزز قارئین!۔قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں سے وعدہ کِیا تھا کہ’’ پاکستان ، حقیقی ، اسلامی ، جمہوری اور فلاحی مملکت ہو گی لیکن، وہاں "Theocracy" (مولویوں کی حکومت ) نہیں ہوگی‘‘۔ قائداعظمؒ کے اِس بیان سے بعض لوگ یہ بھی سمجھتے تھے /ہیں اور بیان کرتے تھے /ہیں کہ ’’ قائداعظمؒ تو "Secularism" (غیر مذہبی) حکومت کے قائل تھے لیکن، بعض اُسے ’’ لا دینی حکومت‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ پاکستان 14 اگست 1947 ء کو قائم ہُوا لیکن، اُس سے تین دِن پہلے 11 اگست 1947ء کو کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے قائداعظم ؒ نے پاکستان کے ہر شہری سے جو کچھ کہا اُس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ … ’’ اب آپ آزاد ہیں ۔ آپ عبادت کے لئے اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں ۔ آپ اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے آزاد ہیں ۔ آپ خواہ کسی مذہب، فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، مملکت کو اِس سے کوئی سروکار نہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں گے کہ نہ ہندو، ہندو رہے گا اور نہ مسلمان ، مسلمان۔ مذہب کے معنوں میں نہیں کیونکہ یہ توذاتی عقیدے کا مسئلہ ہے جب کوئی مسلمان ہوگا اور کوئی ہندو، بلکہ سیاست کے معنوں میں ، جب ہر شخص مملکت کا شہری ہوتا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے جب بھی اپنے کالموں میں اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد ’’ نائب رسولؐ فی الہند‘‘ خواجہ معین اُلدّین چشتی المعروف خواجہ غریب نوازؒ کا تذکرہ کِیا تو، یہ بھی لکھا کہ ’’ قائداعظمؒ نے "Theocracy" سے پاک ’’حقیقی، اسلامی اور فلاحی مملکت ‘‘ کا "Idea" یقینا خواجہ غریب نوازؒ کی تعلیمات سے حاصل کِیا ہوگا؟۔ غزنی کا سُلطان ، شہاب اُلدّین غوری 1191ء میں ترائین کی پہلی جنگ میں دہلی / اجمیر کے راجا پرتھوی راج چوہان سے شکست کھا گیا تھا لیکن، پھر خواجہ غریب نواز ؒنے غوری کے خواب میں آ کر اُسے فتح کی بشارت دِی تو،1193ء میں سلُطان شہاب اُلدّین غوری نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دے دِی تھی۔ فتح کے بعد غوریؔ بہت سا مال و دولت لے کر خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہُوا تو، خواجہ صاحبؒ نے اُسے حُکم دِیا کہ ’’یہ سارا مال و دولت بلا لحاظ مذہب ومِلّت اجمیر کے غریبوں میں بانٹ دو!‘‘۔ غوریؔ نے ایسا ہی کِیا۔ دوسری بار غوری پھر بہت سا مال و دولت لے کر حاضر ہُوا۔ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’ یہ مال و دولت میرے کسی کام کا نہیں !‘‘۔ غوری نے کہا حضور کوئی اور حُکم؟۔ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’مقتول پرتھوی راج چوہان کے بیٹے گوبِند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!‘‘۔ غوری ؔنے کہا کہ’’ حضور !۔ وہ تو غیر مسلم ہے ؟ ‘‘۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ’’ فاتح مُسلم قوم کی طرف سے مفتوح ہندو قوم کو یقین دلانا ضروری ہے کہ’’ فاتح قوم ۔ اِنسان دوست ہے!‘‘۔ سُلطان شہاب اُلدّین غوری نے ایسا ہی کِیا۔ معزز قارئین! حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ایک نچلی ذات کے ہندو (شودر) جوگِندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا وزیر قانون بنوا دِیا تھا ۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوئوں کی مُتعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی اور بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تو خُود کو "Secularism"کا دعویدار بیان کرتے تھے لیکن، اُن کے دَور میں اور اُس کے بعد ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ‘‘ (R.S.S) کی ذیلی تنظیموں خاص طور پر ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کی حکومت میں مسلمانوں کو اُن کے حقوق سے محروم کِیا گیا۔ 5 اگست 2019ء کو وزیراعظم مودی اور اُن کے دہشت گرد ساتھیوں نے مقبوضہ کشمیر میں حُریت پسند کشمیریوں سے جو سلوک کِیا اُس پر پاکستان سمیت ، پوری دُنیا میں مسلمانوں اور دوسری قوموں کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے ۔ ’’سجّادہ نشین اجمیر شریف‘‘ معزز قارئین!۔ مَیں نے پرسوں (17 اگست کو) ’’92 نیوز چینل‘‘ پر اور کل (18 اگست کو) روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر اجمیر شریف کے سجّادہ نشین سیّد سرور چشتی کا خطاب سُنا اور پڑھا لیکن، کل ہی مجھے راولپنڈی کے ایک دوست پروفیسر محمد خلیل چودھری نے "Whatsapp" پر محترم سرور چشتی صاحب کا مکمل خطاب بھجوایا تو، مَیں اُس کے خاص خاص پوائنٹس آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہُوں ۔ سجّادہ نشین صاحب نے نہ صِرف مودی سرکار بلکہ ہندوستان کے تقریباً سبھی مسلمان دشمن ہندوئوں کو جس انداز میں للکارا ہے وہ اُنہی کا حصّہ ہے ۔ آپ نے کہا کہ … ’’ بھارت کا یوم آزادی ؟ لیکن، بھارت کے مسلمانوں کے لئے یہ کیسا ’’ یوم آزادی‘‘ ہے کہ اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ میرے جدّ امجد مولا علی علیہ السلام نے کہا تھا کہ ’’ کفر کی حکومت تو، برداشت کی جاسکتی ہے لیکن ، ظلم کی حکومت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ میرے جدّ امجد حضرت امام حسین ؑ نے حق کے لئے خلیفۂ وقت یزید کے لشکرجرار کا مقابلہ کِیا۔ حضرت خواجہ معین اُلدّین چشتی ؒ برصغیر پاک وہند میں دین اسلام لے کر آئے ۔ بھارت میں 850سال کی حکومت ہماری (مسلمانوں کی ) میراث ہے ۔ ہم (مسلمان ) دو حوالوں سے آپ سے زیادہ وطن پرست ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ’’ ہم اِس ملک کے 850 سال حاکم رہے اور تُم ہمارے "Subject" (رعیّت/ رعایا ) رہے ہواور دوسرا یہ کہ ’’ ہم مر کر بھی اِسی مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے باپ دادائوں کی قبریں یہاں ہیں ۔ تمہارا تو صرف جیتے جی کا ساتھ ہے ۔ مرنے کے بعد تمہارا کوئی ساتھ نہیں ‘‘۔ بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ نعرہ بلند کرنا پڑ رہا ہے کہ "Please do not Teach us Secularism"۔ سیکولرازم ؔ تو، ہم چشتیوں کی گُھٹی میں ہے ۔ ہم 800 سال سے پریکٹس کر رہے ہیں ۔ ہر مذہب و ملّت کے لوگ یہاں آتے ہیں ۔ ہم نے کبھی فرق محسوس نہیں کِیا نہ کریں گے ۔ حضرت امیر خسروؒ چشتی صوفی تھے ۔آپ اپنی جس موسیقی اور راگ ، راگنیوں کی بات کرتے ہو اُس کے "Pioneer" ( سرخیل) حضرت امیر خسرو ؒ ہیں ۔ بھارت میں "British Rulers" (انگریز حکمران ) تو ، سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے تھے لیکن،"Muslim Rulers" ۔ ( مسلمان حکمران ) تو ، سب کچھ یہیں چھوڑ گئے اور سب اِسی مٹی میں دفن ہوگئے ہیں ۔ تاج محل ، لال قلعہ ، قطب مینار ، ’’میراث‘‘ ( Heritage)دے کر گئے، جن سے تم کھربوں روپے کما رہے ہو!۔ ہمارا قصور کیا ہے؟کہ ’’ ہم مسلمان ہیں ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے لئے مسلمانوں نے زیادہ جدوجہد کی ۔ ہم سب سے زیادہ شہید ہُوئے۔ گورے (انگریز) مسلمانوں سے ڈرتے تھے لیکن، تم ( ہندوئوں ) سے نہیں ڈرتے تھے اب تم داڑھی والے مسلمانوں کو پکڑتے ہو ، کہیں تم بچوں کو مارتے ہو کہیں تمہارے "Minister"اور "Chief Minister" ہماری عورتوں سے بیہودہ باتیں کرتے ہو۔ یہ کون سا ہندوستان ہے؟۔ یہ کون سی دیش بھگتی ہے؟۔ آج بھارت کے مسلمانوں میں بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ 30 کروڑ مسلمان ہیں "Please" آپ اُنہیں "Lightly" نہ لیں !۔ مسلمانو!۔ جاگو !۔ جاگو !۔ جاگو!۔ ہر دھرم (مذہب) یہی کہتا ہے بالخصوص اسلام یہ کہتا ہے کہ ’’ ظلم کرنے والے سے بھی بڑا وہ شخص ظالم ہے جو، ظلم سہتا ہے ‘‘۔ دُنیا کے ہر سماج ، ہر ملک اور ہر آئین یہ کہتا ہے کہ ’’ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا بے حد ضروری ہے ‘‘لیکن، میرا مطلب قطعی طور پر یہ نہ سمجھا جائے کہ ’’ ہم لڑائی جھگڑے میں ملوث ہونا چاہتے ہیں ۔ تم (ہندوئوں ) نے تو، پڑھنا لکھنا ہی چھوڑ دِیا ہے ۔ مَیں تمہیں کہتا ہُوں کہ پڑھو اور لکھو۔ کُل اڑھائی لاکھ گوروں (انگریزوں ) نے ہندوستان پر حکومت کی ، جب مسلمان یہاں آئے تو بہت تھوڑے تھے جنہوں نے حکومت کی ، ہم حاکم رہے اور تُم نے ہمیں اپنا "Subject" بنا دِیا۔ مَیں کہتا ہُوں کہ ’’ مسلمانو!۔ جاگو !۔ جاگو!۔ جاگو! اور جاگو!‘‘۔ معزز قارئین!۔ سجّادہ نشین خواجہ غریب نوازؒ نے تو، نعرۂ تکبیر بلند کردِیا ہے ۔ دیکھنا ہے کہ ’’ بھارت کے کس کس کونے سے اللہ اُکبر ۔ اللہ اُکبر کی گونج تیز سے تیز تر ہوتی جائے گی؟۔