یہ چند برس قبل اسلام آباد میں دسمبر کی ایک یخ بستہ رات تھی ، جب میں بوجھل طبیعت لئے ایک دوست کی رہائشگاہ پہنچا، اس نے پوچھا ، تمہاری بے کیفی کیسے ختم کی جائے ؟ میں نے عدم مرحوم کا شعر پڑھ دیا خزاں زدہ دل کی بے حسی کا علاج صرف ایک تلخ شئے ہے وہ تلخ شئے کوئی لے کے آئے، تو میں یقینِ بہار کر لوں وہ اُٹھا ، گیا اور لوٹا، ااُ س نے تلخ شئے سے بھرا گلاس میرے سامنے رکھدیا۔ گلاس کو سامنے سے ہٹانے کے لئے اسے چھونا پڑتا، میں نے گلاس کو چھونے کے بجائے نشست بدل لی۔ میری اس حرکت پر اس کی آنکھیں میری بے ذوقی کا ماتم کرچکیں تو اس کی زبان نے سوال کیا، ’’تم کیوں نہیں پیتے ؟‘‘ میرے جواب میں تا تاریوں جیسی بے رحمی تھی ’’جسے پی کر منہ اور خیالات دونوں ہی سے بد بو آئے وہ میرے معیار کی چیز نہیں ہوسکتی !‘‘ وہ اُٹھا میرا بازو پکڑا ، اور دروازے سے باہر چھوڑ گیا، وہ نشے میں تھا اور مجھے یہ فکر لاحق ہوگئی کہ نشے میں کہیں وہ تنہاء نہ رہ جائے ! سخت قوانین اور معاشی بد حالی نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران نشئی برادری کی مشکلات بڑھادی ہیں۔ منشیات کے عادی افراد، کسی ارزاں متبادل کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔لاہور میں کھانسی کے سیرپ سے مرنے والے ، کھانسی کے مریض نہ تھے بلکہ سیرپ کی بوتل بنت انگور کے متبادل کا کام کر رہی تھی۔ جس کا نتیجہ دو درجن سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت ہمارے سامنے آیا تھا۔ پاکستان میں ایک کیمیائی بانڈ اور پٹرول بھی ایک عرصے سے متبادل نشے کے طور پر زیرِ استعمال ہیں، مگر انکی تباہ کاریوں کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں۔ پاکستان میں صرف بیس اموات نے ہی پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا، اور لوگ چونک اُٹھے تھے کہ ایک دوا بھی شراب کا متبادل ہو سکتی ہے ؟ جبکہ یہ مسئلہ اپنی انتہائی تباہ کن شکل میں دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ کو درپیش ہے۔ امریکی ادارے ،سی ڈی سی (Center for Disease Control and Prevention) نے انہی دنوں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مندرجات نے پوری دنیا کو چونکا دیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں منشیات کے عادی افراد ناقابلِ یقین تیزی کے ساتھ پین کلرز کو متبادل نشے کے طور پر اختیار کرتے جا رہے ہیں، اور اس رجحان نے ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق بارہ ملین امریکی شہری پین کلرز کا نشہ کر رہے ہیں، جس کی اوئور ڈوز کے نتیجے میں ہر سال پندرہ ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، امریکہ کے ، نیشنل سروے آن ڈرگ اینڈ ہیلتھ ، کے مطابق پین کلرز سے یومیہ چالیس امریکی شہری مر رہے ہیں اور یہ تعداد منشیات سے ہونے والی ہلاکتوں سے بھی تین گنا زیادہ ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق 1999ء میں پین کلر ز سے مرنے والوں کی تعداد چار ہزار اکتالیس تھی، جبکہ 2008ء میں یہ تعداد بڑھ کر چودہ ہزار چار سو انسٹھ ہو گئی تھی۔ سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ منشیات مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی بھی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا حصول روز بروز مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے، اسی سبب منشیات کے عادی افراد خا موشی سے پین کلرز کی طرف منتقل ہو ئے، جو نہ توغیر قانونی ہیں اور نہ ہی ان کا حصول مشکل ہے۔ رپورٹ کے مطابق پین کلرز صرف ڈاکٹری نسخے پر ہی حاصل کی جا سکتی ہیں لیکن ڈاکٹرز کا طرزِ عمل اس ضمن میں اسقدر غیرذمہ دارانہ رہا ہے کہ صرف سال 2011ء میں ہی پین کلرز کے دو سو ملین نسخے لکھ کر دیئے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ Methadone ، نامی دوا صرف نشے کے عادی افراد کے علاج کے لئے تھی مگر اچانک ڈاکٹرز نے اسے بھی پین کلر کا درجہ دیکر اسکے نسخے جاری کرنے شروع کردیئے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2007ء میں صرف فلوریڈا میں اس سے سات سو پچاسی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہے کہ روزانہ پانچ ہزار پانچ سونئے افراد پین کلر نشے کا اغاز کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے دس برسوں کے دوران امریکہ میں پین کلر ز کی تجارت میں تین سو فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ منشیات کا استعمال سفید فاموں کی نسبت سیاہ فاموں میں زیادہ تھا، لیکن پین کلرز کا بطورِ نشہ استعمال کرنے والوں میں سفید فام سرِ فہرست تھے۔ رپورٹ کے مطابق ہر تیس میں سے ایک سیاہ فام امریکی پین کلر کا نشہ کر رہا تھا، جبکہ سفید فاموں میں یہ شرح ہر بیس میں سے ایک کی تھی۔ سی ڈی سی رپورٹ کے مطابق 2011ء میں پین کلر اوئور ڈوز کے جو متاثرین امریکی ہاسپتالوں کی ایمرجنسی میں لائے گئے اور جن کی جان بچائی گئی ان کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی اور ان کے علاج پر 73 ارب ڈالرز خرچ ہوئے جو ہوش ربا اعداد و شمار ہیں۔ میں ابھی وہیں کھڑا تھا کہ دروازہ ایک بار پھر کھلا اور میرے دوست نے اس کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے کہا ’’اگر تم اپنے خیالات اور الفاظ بدلنے پر آمادہ ہوسکتے ہو تو اندر آسکتے ہو !‘‘ شدید ٹھنڈ میں دو چیزیں نہیں بدلی جا سکتی تھیں، میں نے صرف الفاظ بدل لئے اور کہا، ’’جسے پی کر رشتوں کی پہچان بھول جائے وہ میرے معیار کی چیز نہیں ہو سکتی‘‘ دروازہ بند ہی نہیں مقفل بھی ہو گیا۔ میرے دوست کو آج بھی یہ ہی میسر ہے، میں اس کی توبہ کی آرزوبھی نہیں کر سکتا کیونکہ جانتا ہوں کہ اس کی توبہ منشیات کے نرخ نہیں گرا سکتی جس کا فائدہ سیرپ جیسا متبادل نشہ کرنے والوں کو ہو سکے، اور ان کی جانیں بچ سکیں۔ وہ زمانے دریا کے بہائو میں بہہ گئے جب اس پائے کے نشئی میسر ہوا کرتے جو فخریہ کہتے ۔ خوشم کہ توبہ من نرخ بادہ، ارزاں کرد