نصیحت کے بارے میں کسی مفکر کا قول ہے کہ اس کا سب سے اچھا استعمال یہ ہے کہ اسے سن کر آگے بڑھا دیا جائے۔ چنانچہ ہم لوگ یہی کرتے ہیں۔ اول تو نصیحت سنتے ہی نہیں اور طوعاً وکرہاً سننی پڑ جائے تو اسے گرہ میں باندھنے کے بجائے کسی اور کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ نصیحت ہی ایسی چیز ہے جس کا مستحق ہم ہمیشہ دوسروں کو سمجھتے ہیں۔ چنانچہ کہی جانے والی اچھی اور عمدہ بات سننے والوں کے درمیان رلتی رہتی ہے۔ وہ بس کہی جاتی ہے اور سنی جاتی ہے۔ کوئی اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ وہ کسی کے عمل میں ڈھل کر باعث خیر و برکت نہیں بنتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے زمانے میں ’’اقوالِ زریں‘‘،’’حکمت کے موتی‘‘اور "Quotations"جیسی کتابیں اور اقوال تو بہت مقبول ہیں لیکن ان میں جو حکمت افروز اور دانائی سے بھرپور باتیں ملتی ہیں، ان کا کوئی اثر ہمارے خیالات و عادات پر نظر نہیں آتا۔ آخر کیوں؟ ہر زمانے کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اب سے پچاس، پچھہتر سال پہلے عاجزی اور انکسار کو شخصیت کا وصف سمجھا جاتا تھا، آج اسے کمزوری اور لجلجاہٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کبھی مہرومحبت، مروت و ایثار اور دلداری، خیر خواہی کو اعلیٰ اقدار میں شمار کیا جاتا تھا۔ اب ان کی جگہ خود غرضی، بے حسی اور مفاد پرستی نے لے لی ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ باگ اپنے عیبوں پر نظر رکھتے تھے اور اپنی اصلاح کی فکر کرتے تھے لیکن یہ زمانہ جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ انانیت کا زمانہ ہے۔ خود کو مکمل اور دوسروں کو ناقص سمجھنے کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں نصیحت اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ نصیحت ہم اس خیال سے سنتے ہیں تا کہ دوسروں کو کر سکیں لیکن اب نصیحت کرتا ہی کون ہے؟ نصیحت اب بھی کارگر ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ نصیحت محسوس نہ ہو کیوں کہ جب نصیحت محسوس ہونے لگے کہ یہ نصیحت ہے تو ٹیلی ویژن کا بٹن آف کر دیا جاتا ہے، کتاب اور رسالے کا صفحہ پلٹ دیا جاتا ہے اور سننے والا بے زاری سے پہلو بدلنے لگتا ہے۔ اب ’’سبق آموز کہانیاں‘‘نہیں لکھی جاتیں ’’عبرت انگیز واقعات‘‘قلم بند نہیں کیے جاتے۔ اب کوئی کسی کو سمجھا بجھانے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ جب نقصان ہو چکتا ہے، تب ناصح کہتا ہے کہ ’’مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ یہ ہو گا لیکن اس لیے نہیں کہا کہ تم برا نہ مان جائو‘‘ یہ زمانہ برا ماننے اور وہ بھی بات بات پر برا ماننے کا ہے۔ آپسی تعلقات میں خواہ وہ کیسے ہی بے تکلفانہ ہوں، اس بات کا خصوصی لحاظ رکھا جاتا ہے، خیال خاطر احباب کے لیے احباب کو ہم تباہی کے گڑھے میں گرتا دیکھ کر بھی چپکی لگائے رہتے ہیں۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ہمارے دوست رشوت لیں، بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کریں، ہم چپ رہتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دوست خوشامدی، مطلبی اور موقع پرست ہیں لیکن پھر بھی وہ ہمارے دوست رہتے ہیں۔ محض اس خوش گمانی کی بنا پر کہ شاید کبھی ان کی ضرورت پڑ جائے۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے قانون، اخلاق اور مذہب کا جنازہ نکال دیتے ہیں اور ہم ان کا دل رکھنے کے لیے ان پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسا دیتے ہیں۔ دل میں خواہ انہیں کتنا برا سمجھیں لیکن زبان سے نصیحت کے دو بول مشکل ہی سے نکلتے ہیں کہ مبادا صراط مستقیم دکھانے پر وہ برا نہ مان جائیں۔ گویا نصیحت نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم خوف زدہ ہیں۔ ذرا سوچیے کیسے کانچ کی طرح نازک تعلقات ہوتے ہیں کہ ہر وقت ان کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہمیں محتاط رکھتا ہے۔ ہم کہتے ہیں ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ‘‘یا ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘اور یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں اور سر جھکا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آج ہمارے اردگرد اندھیرے بڑھتے جا رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے حق کی نصیحت چھوڑ دی ہے۔ برائی کو دیکھ کر خاموش رہنا، اس برائی کے فروغ میں حصہ لینا ہے۔ اپنی مٹھی بھر نیکی پر ہم اتراتے ہیں۔ اگر نیکی بے اثر ہو جائے تو بدی پھلنے پھولنے لگتی ہے۔ سچائی کو ہماری روح میں اس طرح زندہ ہونا چاہیے کہ ہم خود کو بہادر و بے باک محسوس کریں۔ ہماری کمزوری، بزدلی اور بے عملی کی وجہ یہی ہے کہ سچ ہمارے اندر ادھوری اور نحیف حالت میں ہوتا ہے، لہٰذا ایسے ادھ کچے سچ کو پیش کرنے کی جرأت ہم کہاں سے لائیں۔ جو آدمی نصیحت سننے کی ہمت رکھتا ہے، وہ بہادر اور حقیقت پسند ہوتا ہے،اس کے برعکس جو خود اپنے عیبوں کو فراموش کر کے دوسرے کی آنکھوں میں شہتیر تلاش کرتا ہے، وہ اپنی انا کی تسکین ڈھونڈتا ہے۔ محتسب تسبیح کے دانوں پہ یہ گنتا رہا کن نے پی کن نے نہ پی کن کن کے آگے جام تھا احتساب احتساب کا شور جتنا ہمارے زمانے میں مچا ہے، انسانیت کی معلوم تاریخ میں شاید ہی کبھی مچا ہو لیکن جتنا شور ہے، احتساب کا عمل اتنا ہی دور ہے۔ جب چور چور کا شور مچانے میں پیش پیش خود چور ہوتو چور پکڑا کیسے جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اصلاح، تبدیلی، انقلاب اور گوش نصیحت نیوش کے لفظوں اور محاوروں سے کھیلتے رہتے ہیں۔ لیکن عمل کی دنیا لفظوں کی چمک دمک کی دنیا کے مقابلے میں دن بہ دن تاریک ہوتی جا رہی ہے۔ جب تک ہم لفظوں کا تعاقب چھوڑ کر معنی پر توجہ نہیں دیں گے، نجات کا راستہ ڈھونڈنا محال ہی رہے گا۔