’’میں نے شروع ہی میں اپنے ایک جرم کا جس کو میں چھپاتا رہا‘ ہلکا سا اقبال کر لیا ہے۔ یعنی شعر و سخن کا ذوق ۔ میں نے جب آنکھ کھولی تو ملک میں امیر و داغ کے معرکے تھے۔ میرے ایک استاد شمس العلماء مولانا حفیظ اللہ صاحب مدرس دارالعلوم جو جنرل عظیم الدین خان کے زمانہ میں رائپور میں رہے تھے اور وہاں منشی امیر احمد صاحب مینائی کی صحبت برسوں اٹھائی تھی۔ وہ اکثر امیر مرحوم کے تذکرے کیا کرتے تھے اور ان کے شعر سناتے تھے۔ ایک اور اتفاق یہ ہے کہ حضرت امیر مینائی کے جلیل القدر شاگرد جلیل مانک پوری‘ جو اب نواب فصاحت جنگ سے مخاطب ہیں‘ ان کے بڑے صاحبزادہ مولوی صدیق صاحب (متوسل سرکار نظام) میرے ساتھ دارالعلوم ندوہ میں پڑھتے تھے۔ ان کے ذریعہ سے حضرت امیر کی بہت ہی غزلیں میری نظر سے گزریں اور دل میں امیر مرحوم کی قدرو منزلت نے گھر کر لیا۔ ان کا دیوان مراۃ الغیب اکثر مطالعہ میں رہتا۔ دارالعلوم میں لڑکوں کے مشاعرے ہوتے تھے‘ غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ ایک صاحب داغ ؔکا روپ بھرتے تھے اور مجھے امیر مرحوم کی پیروی کا دعویٰ تھا۔ لیکن 1912ء میں جب مولانا شبلی نے نئی اردو شاعری کی طرح ڈالی تو دل نے اس میں استاد کی پیروی کا حق ادا کرنا چاہا‘ متعدد نظمیں اس رنگ میں لکھیں جن کا خاتمہ استاد کے ماتم پر ہوا۔ جو نوحۂ استاد کے نام سے 1915ء میں پونہ میں چھپا جہاں میں ان دنوں دکن کالج میں فارسی کا لیکچرر تھا۔ میں نے جب یہ نوحہ لکھا تو اکبر الٰہ آبادی ‘ ڈاکٹر اقبال‘ عزیز لکھنوی‘ مولانا شروانی وغیرہ اور استاد مرحوم کے اکثر دوستوں اور قدر دانوں کے پاس اس کو تحفہ بھیجا۔ سب نے تعریفیں کیں اور دل بڑھایا۔ مگر ایک آزمودہ کار صاحب کمال ایسا تھا جس نے شفقت کی راہ سے مجھے لکھا کہ ’’ معاف کیجیے‘ آپ شاعر نہیں ‘‘اور اس کے بعد ایک نکتہ مجھے بتایا جو میرے دل میں پیوست ہو گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’جب تک انسان کسی فن میں کامل نہ ہو جائے‘ اس کو دوسروں کے سامنے عرض ہنر نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ میں نے اسی دن بساط سخن لپیٹ دی اور شاعری سے توبہ کر لی۔ اس کے بعد اگر کبھی دل کے تقاضے سے مجبور ہو کر کچھ کہا تو اس کو عیب کی طرح چھپایا اور اگر چھپ نہ سکا اور چھپ گیا تو نام کو رمز و اشارہ بنا دیا۔یہ آزمودہ کار صاحب کمال جنہوں نے مجھے یہ قیمتی نصیحت کی جس نے میرے رخ کو نظم سے تمامتر نثر کی طرف پھیر دیا‘نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی تھے۔ اسی طرح طالب علمی کے زمانہ میں ایک اور بزرگ نے عین وقت پر میری ایسی رہبری کی جس نے میرے خیالات کی دنیا پلٹ دی۔ یہ بزرگ ندوۃ العلما کے پہلے ناظم مولانا سید محمد علی صاحب ہیں‘ مجھے اس زمانہ میں عربی ادب اور منطق کا شوق تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلوا کر پوچھا کہ تم کو کس کس فن سے ذوق ہے؟ میں نے عربی ادب اور منطق کا نام لیا۔ فرمایا۔ کیوں ؟ میں نے کہا اس لئے کہ یہ دونوں دوسرے اصل مقصود علوم کے خادم اور ذریعہ ہیں۔ ارشاد ہوا کہ آخر ان اصل علوم کی طرف توجہ کب ہو گی؟ عرض کی‘ جب ان میں کمال پیدا ہو جائے گا۔ فرمایا تو اسی خادم اور ذریعہ علوم میں تو ہمارے علماء کی پوری عمریں بسر ہو جاتی ہیں اور اصل مقصود کی نوبت نہیں آتی۔ اس پر انہوں نے یہ حکایت بیان کی کہ ایک صاحب کو تصنیف کا شوق پیدا ہوا تو وہ قلم بنا بنا کر رکھنے لگے‘ یہاں تک کہ تمام کمرہ قلموں سے بھر گیا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت! یہ آپ اتنے قلم بنا بنا کر کیوں رکھ رہے ہیں؟ تو متانت سے ارشاد ہوا کہ ’’میرا ارادہ تصنیف کا ہے۔‘‘پوچھنے والوں نے کہا کہ ’’پھر وہ کب ہو گی؟‘‘ فرمایا ’’ جب ان قلموں سے فرصت ملے گی۔‘‘ یہ تمثیل اس بات کی تھی کہ عربی نصاب تعلیم کا حصہ دینی علوم کی تمہید اور ذریعہ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ یہ ذریعہ تعلیم اصل تعلیم کی جگہ لے لیتا ہے۔ مولانا کی یہ حکایت میرے لئے اس درجہ موثر ہوئی کہ میں نے پھر تمام عمر ذریعہ علوم اور مقصد علوم کے درمیان کبھی مغالطہ نہیں کھایا۔ دارالعلوم ہی میں تھا کہ ایک بزرگ سے نیاز حاصل ہوا۔ یہ مولانا شبلی کے ماموں زاد بھائی مولانا حمید الدین صاحب بی اے تھے۔ یہ عربی کے عالم اور انگریزی کے گریجوایٹ تھے۔ فلسفہ میں وہ ڈاکٹر ارنلڈ کے اور ادب میں مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے شاگرد تھے۔ یہ ان لوگوں میں تھے جو ثانوی علوم کی تکمیل کی بھول بھلیوں سے نکل کر اصل مقصد کی منزل تک پہنچ گئے تھے۔ سالہا سال سے وہ قرآن پاک کے حقائق و معانی غور کر رہے تھے۔ ان سے قرآن پاک اور فلسفہ جدید کے سبق تو کم ہی پڑھے مگر صحبت بار بار اٹھائی اور مشکلات میں مشورے بار بار کیے۔سیرت کی تیسری جلد میں جو معجزات پر ہے‘ انہی کے فلسفہ کی تقلید کی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ میرا تصنیفی ذوق مولانا شبلی مرحوم کی تربیت کے دامن میں پرورش پایا ہے۔ استاد مرحوم کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نو آموزوں کو پہلے مضمون لکھنے کی ہدایت کرتے تھے۔ کبھی وہ عنوان خود بتاتے تھے اور کبھی طالب علم خود ہی مقرر کر لیتے تھے۔ پھر وہ اس مضمون کے متعلق معلومات کا سراغ کتابوں میں بتاتے تھے۔ طالب علم اپنی محنت سے ان کا کھوج لگاتے تھے اور جب کافی معلومات جمع ہو جاتیں تو ان کو لکھ کر ان کے سامنے پیش کرتے۔ وہ اس میں کانٹ چھانٹ کرتے۔ مضمون کے بعد پھر رسالوں کی اور اس کے بعد کتابوں کی تصنیف کی باری آتی‘ تاکید ہوتی کہ معلومات اور مواد کو ہر کونہ اور گوشہ سے اس محنت سے ڈھونڈو کہ پھر کوئی کونہ خالی نہ رہ جائے۔اس عنوان پر اگر پہلے کسی نے لکھا ہو تو اس سے تمہارا مضمون الگ رہے یا اس سے بڑھ جائے‘ مستند حوالہ کے بغیر کوئی واقعہ نقل نہ کیا جائے۔ حوالہ میں سب سے قدیم اور سب سے مستند ماخذ کا خیال رکھا جائے۔ معنی کے ساتھ عبارت کی چستی‘ طرز ادا کی شگفتگی اور تشبیہہ و استعارہ کی ندرت ہاتھ سے نہ جائے۔ پامال معلومات’ معتدل محاورات اور عامیانہ الفاظ سے پوری طرح پرہیز کیا جائے۔ یہ ان کا طریقہ کار تھا اور اسی طرح کی پابندی ہمارے دارالمصنفین میں‘ جس میں علماء اور گریجوایٹ اصحاب کو تصنیف و تالیف کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب تک کی جاتی ہے۔‘‘(مولانا سید سلیمان ندوی کی خود نوشت سوانح کا ایک اقتباس)