’’نظام المدارس‘‘تحریک منہاج القرآن کا مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ہے، جس کو دیگر نصف درجن کے قریب نوزائیدہ دینی مدرسہ بورڈز کے ساتھ میدانِ عمل میں اْترے ابھی بمشکل ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہی گزرا ہے اور وفاقی وزارتِ تعلیم، حکومت پاکستان نے 4 فروری 2021ء کو اپنے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ، وفاقی دینی تعلیمی بورڈ کے طور پر منظور کیا ہے۔ ایسا مختصر عرصہ ادارہ سازی کے لیے کبھی بھی کافی نہیں ہوتا، لیکن مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی، جب نظام المدارس پاکستان کے ناظمِ اعلیٰ ڈاکٹر میر آصف اکبر نے، اپنے مدرسہ بورڈ کے پہلے سالانہ امتحان2022ء کے پوزیشن ہولڈرز میں تقسیم اعزازات کی تقریب میں شرکت کے لیے منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ واقع 365، ایم بلاک،ماڈل ٹاؤن میں مدعو کیا۔ جس میں متحدہ جمعیت اہلحدیث کے امیر علامہ سیّد ضیاء اللہ شاہ بخاری، جامعہ سراجیہ نعیمیہ کی پرنسپل ڈاکٹرنبیرہ عندلیب نعیمی،نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ،نائب صدر مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ علامہ ملک توقیر عباس اور ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور اپنی نشستوں پر براجمان تھے، مجھے بعد میں بتایا گیا کہ تحریک منہاج القرآن کے روحِ رواں اور قائد علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری، جو اْن دنوں یورپ کے دورے پر تھے، وڈیو لنک کے ذریعے اس تقریب کی کارروائی میں شامل ہیں،جبکہ ان کے نورِ نظر صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنر منہاج یونیورسٹی ازخود مسندِ صدارت پہ متمکن تھے۔منہاج القرآن کے متعلقین نظم و نسق سے مزین اور انکا مرکزی سیکرٹریٹ بہترین انفراسٹرکچر کا حامل ہے، خوبصورت آڈیٹوریم میں نہایت سلیقے اور قرینے سے نشستیں آراستہ تھیں، میرے سامنے کی میز پر دیگر کتب کے ساتھ،1 14صفحات پر مشتمل’’نظام المدارس پاکستان کا تعارف، مقاصد اور نصاب‘‘بھی دستیاب تھا، جس کی پیشانی پرمعاصر تقاضوں کا عکاس، دینی اور عصری علوم کے اِمتزاج کا حامل، جدید خطوط پر استوار دینی تعلیمی بورڈ کے الفاظ نمایاں، جبکہ بیک ٹائیٹل پر اہم مقاصد و اہداف میں: دینی نظامِ تعلیم کی جدید خطوط پر استواری کے لیے اصلاحات متعارف کرانا،منسلک اور ملحقہ مدارسِ/جامعات/ادارہ جات کے ماحول کو ہر قسم کی انتہا پسندانہ، متشدّدانہ، فرقہ وارانہ سوچ سے کاملاً پاک رکھنا۔طلبہ وطالبات کی ایسے منہج پر تعلیم و تربیت کا اہتمام کہ جس کے زیر اثر وہ تعمیرِ شخصیت، علّوِ ذہنی، تزئین وتہذیبِ کردار، تقویٰ و طہارت، اِحترامِ اِنسانیت، حب الوطنی اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشارہو کر اِ سلام کی حقیقی فکر کے پیامبر بن سکیں۔ اَمن و اِعتدال،بین المسالک ہم آہنگی اور بین المذاہب رواداری کو فروغ دینے والی تعلیمات پر مشتمل مضامین پڑھانا تاکہ اِن اِداروں کے اسکالرز متوازن سوچ، معتدل فکر اور کشادہ ذہن کے ساتھ بین المسالک ہم آہنگی اور بین المذاہب رواداری کے پیامبر بن سکیں ۔ تقریب کی کارروائی کے ساتھ، نظام المدارس پاکستان کے سلیبس کی بھی جَستہ جَستہ ورق گردانی کرتا رہا اور مجھے اس امر پر ازحد مسرت ہوئی، جب میں نے اسکیم آف اسٹڈیز اور پرچہ جات و مضامین کی تفصیل میں دیگر مضامین کے ساتھ ’’السیرۃ و الفضائل،التصوّف، السیرۃ والاخلاق التصوّف والاّداب‘‘کے مضامین کو اہم اور بنیادی سبجیکٹس کے طور پر نصاب میں شامل اور اس ضمن میں الرسالہ القشیریہ،تذکرے اور صحبتیں ،حْسنِ اعمال، ایہاالولد،للامام ابی حامدالغزالی، مکان الادب فی الا سلام، سلوک و تصوّف کا عملی دستور، تعلیم المتعلم فی طریق التعلم، الغنیۃ الطالبین طریق الحق للشیخ عبد القادرمحی الدین الجیلانی، کشف المحجوب لابیی الحسن علی بن عثمان الہجویری، الادب المفرد لابیی عبد اللہ محمد بن اسمعیل البخاری، بدایۃ الھدایۃ للام ابیی حامد الغزالی، عوارف المعارف لشہاب الدین السہروردی جبکہ سیر طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے المواہب اللدنیہ،کشفْ الغطا عَن مَعرِ فۃِ الاقسامِ للمصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اَلوَ فَافی رَحمۃ النبیی المصطفیؐ، سیرۃ الرسولؐ، اَطیَبْ الشِّیَم مِن خْلق سیّد العرب والعجم،المحصولی فی جوامع کلم الرسول، الشمائل المحمدیہ لابیی عیسیٰ محمدبن عیسیٰ الترمذی، اطیب السّْول فی شمائل الرسول، وسائل الوصول الی شمائل الرسول للشیخ یوسف بن اسمعیل الشفابتعریف حقوق المصطفیٰؐ لابیی الفضل القاضی عیاض، السیرۃ النبویۃ لابیی محمد جمال الدین عبد الملک بن ہشام، الحمیری مع الروض الانف لابیی القاسم عبد الرحمن احمد السہیلی سمیت دیگر بنیادی مصادر اور امہات کتب شامل نصاب ہیں۔ میں نے اس کی موقع پر بھی تحسین اور پذیرائی کی اورماضی میں بھی اس امر کا مستقل خواہاں رھاھوں کہ اْسوہ رسول ؐکی ترویج اور سیرتِ طبیہ ؐ کے لیے ان کتب کی تدریس بطور ٹیکسٹ بک، از حد مفید ہے۔ میری اس رائے پر سیّد ضیا اللہ شاہ بخاری نے بات کو مزید آگے بڑھایا کہ وہ مدینہ یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم سیرت ِ ابن ہشام کو نصاب میں سبقاً سبقاًپڑھتے رہے ہیں۔ مجھے امیدہے کہ دیگر مدرسہ ایجوکیشن بورڈز بھی اس طرف متوجہ ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظام المدارس پا کستان نے درسِ نظامی کو جدید نصاب سازی سے آراستہ کرکے دینی درسیات اور اس کے سلیبس کو تازگی بخشی ہے۔ تصوّف اور سیرت طیبہؐ کا مطالعہ مدارس کے طلبہ کی تزئین و تہذیب میں مدد گار ثابت ہوگا۔ دینی درسیات کو عصری علوم کے امتزاج سے بھی مزین کیا گیا ہے، جو کہ لائقِ مبارک باد امر ہے اور پھر اسکے ضابطہ الحاق میں بالخصوص اس امر کی صراحت کہ انتہاپسندانہ، متشدّدانہ،منافرانہ یا فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث کوئی مدرسہ /جامعہ/ادارہ اس سے الحاق کا اہل نہیں ہوگا/نہیں رہے گا۔ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث مدرسہ /جامعہ/ادارہ الحاق کا اہل نہیں ہوگا/ نہیں رہے گا۔ " جبکہ اسکے ضابطہ اخلاق کے مطابق ، نظام المدارس پاکستان" کا ہر عہدے دار اپنے حلقہ اثر اور دائرہ اختیار میں باہمی اخوت و محبت، تحمل و برداشت اور احترام ِ انسانیت کے منزہ و مصفّٰی جذبات کو خلوصِ نیت کے ساتھ فروغ دے گا۔ نیزاپنی ذات اور اپنے تعلیمی ادارے کی فضا کو غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر علمی سیاسی سرگرمیوں اور منفی سماجی موثرات سے محفوظ رکھے گا۔ ’’نظام المدارس پاکستان‘‘کے چارٹرکے مطابق،اس کا مقصدِ تاسیس، رِجالِ کار کی ایسی جامع اور متوازن کھیپ تیار کرنا ہے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملت ِ اسلامیہ کی راہ نمائی اور قیادت کا فریضہ انجام دے سکے۔ چنانچہ’’نظام المدارس پاکستان‘‘نے شدت سے محسوس کیا کہ مدارس میں سالہا سال سے پڑھائے جانے والے نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ایک مربوط اور جامع اسکیم کے تحت از سر نو تشکیل دینا ناگزیر ہے۔ علومِ دین کے نصاب کی تشکیل ِ نو کے اس رفیع الشان مقصد کے لیے انہوں نے ایک وسیع الجہات شعبہ تحقیق نصاب قائم کیا، جس کے تحت علومِ شریعہ کے ماہر اسکالرز، تجربہ کار، فارن کوالیفائڈ اور پی ایچ ڈی ا ساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے اپنے قائد محترم کی فکر ی و نظریاتی راہنمائی میں عصر حاضر کے تقاضوں اور فرمانِ ا مروز کے مطابق نصاب مرتب کر کیا،، جس کی انہوں نے انتہائی عمیق نظری اور باریک بینی سے نظر ثانی فرمائی اور اسے ضروری ترمیمات و اِ صطلاحات کے بعد حتمی شکل دی۔ یہ نصاب ایک طرف دین کے حقیقی فہم کے لیے اسلام کے مصادر ِ اصلیہ کے تعلق کو مضبوط بناتا ہے تو دوسری طرف ،بڑی حد تک عصری تعلیمی ضروریات اور مقاصد سے موافقت پید اکر کے اسلام کے مصادرِ اصلیہ اور عصری تعلیمی مقتضیات کے مابین خلیج کو دور کرتا ہے۔ اس نصاب میں ایک طرف تو قرآن و علوم القرآن، حدیث و علوم الحدیث، سیرت وفضائل ِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقہ و علوم الفقہ، عربی زبان و ادب، تصوف و آداب، افکار و عقائد کو اور دوسری طرف انگریزی، اْردو،مطالعہ پاکستان، کمپیوٹر سائنس، معاشیات، شہریت، ایجو کیشن، سیاسیات، تاریخ، اسلام اور سائنس، تقابلِ اَدیان، وسطیات اور دعوہ و ارشاد جیسے مضامین کو مختلف تعلیمی سطحوں کا لازمی حصہ بنایا گیا ہے۔