ساہیوال کے واقعے کے بعد میرے جیسے بزعم خود بہت دلیر لوگ بھی شدید خوف کا شکار ہیں۔ رات کو لیٹ دفتر سے گھر جاتے ہوئے پولیس کی گشت کرتی ہوئی گاڑی کی فلیش لائٹس دیکھ کر میں دور سے ہی راستہ تبدیل کر لیتا ہوں کیا خبر کسی نے انکو دہشت گرد کے اسلام آباد کی سڑکوں پر سفر کرنے کی اطلاع دی ہو اور وہ اپنی بندوقیں لوڈ کئے اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہوں۔ اتنا موقع تو وہ دیں گے نہیں کہ میں اپنے صحافی ہونے کا رعب ان پر ڈال سکوں۔ ہر رات گھر پہنچ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔بچے جوان ہو گئے ہیں ، دن میںمصروفیت کے باعث انہیں بھی سڑکوں پر رواں رہنا ہوتا ہے۔ بار بار پوچھتا ہوں کہ کہاں ہو، خیریت تو ہے نا۔اگر بچے فون کا جواب نہ دیں تو جب تک جوابی کال نہ آجائے خون خشک رہتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ایسی صورتحال سے دوچار رہا ہے جہاں یہ فکر ضرور ہوتی تھی کہ کہیں کوئی بم دھماکہ، دہشت گردی کا واقعہ ہوسکتا ہے، احتیاط کس طرح کی جائے۔ لیکن دہشت گرد تو دشمن تھے ان سے کیا بعید ہو سکتا ہے۔پولیس یا انسداد دہشت گردی فورس تو دشمنوں کی نہیں ہے وہ تو دہشت گردوں سے عوام کو تحفظ دینے کے لئے بنائی گئی ہے۔لیکن یہ کیا کہ وہی عوام کی جانوں کے درپے ہو گئی۔ خدا کرے ساہیوال جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو لیکن اس واقعے نے ہمارے نظام سے عوام کو انتہائی خوفزدہ کر دیا ہے۔انتہائی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس سے پہلے بھی اس نظام میں عام لوگوں کے لئے خوف کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ زمین پر قبضہ ہو جانے کا خوف، اغواء برائے تاوان کا خوف، ڈاکے کا خوف، پولیس کے ہاتھوں رسوائی اور پولیس مقابلے کاخوف۔ایسی فورس جو عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے بنائی گئی وہی عوام کے جان و مال کی دشمن ہو گئی ہے ۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پولیس کی چھترول تو مشہور تھی کہ انکے ہاتھ کوئی ملزم آ جاتا تو پھراسے کردہ نا کردہ سارے جرائم کا اعتراف کئے ہی بنتی تھی۔ شور کوٹ میں ہمارے سکول کے سامنے تھانہ تھا۔ تفریح یا چھٹی کے وقت اسکے سامنے والے دالان میں اکثر پولیس والے ایسے کسی ہاتھ آئے مرغے کی گوشمالی کر رہے ہوتے تھے اور سکول کے بچوں کے لئے یہ ایک مرغوب تفریح ہوتی تھی۔ لیکن اس دور میں ماورائے عدالت قتل یا پولیس مقابلے کی لت پولیس کو نہیں پڑی تھی۔ ویسے بھی اسکی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور خصوصاً میاں شہباز شریف کی حکومت سے پہلے اس بارے میںشاذونادر سننے میں آتا تھا لیکن پھر عابد باکسر نامی شخص پولیس افسر بنا اور پولیس مقابلے روزانہ کا معمول بن گئے۔اس زمانے میں اسلام آباد میں صحافت کا آغاز کر چکا تھا۔ وفاقی دارالحکومت میں اس بارے میں اتنی تشویش نہیں محسوس ہوتی تھی لیکن جب کبھی لاہور کے دوستوں سے ملاقات یا گپ شپ کا موقع ملتا تو اس بارے میں بہت تشویش کا شکار دکھائی دیتے کیونکہ اس کی آڑ میں بہت سے ذاتی دشمنیوں کے بدلے بھی لئے جا رہے تھے اور کسی کو ہمت نہیں تھی کہ اس بارے میں سوال کر سکے۔ جنرل مشرف کے دور میں اس بارے میں نوٹس لیا گیا اور شہباز شریف اور عابد باکسر اس بارے میں جوابدہی کے قابل ٹھہرے لیکن ہوا کچھ نہیں کہ جنرل مشرف نے شریف خاندان کو سعودی عرب پناہ لینے کی اجازت دے دی اور معاملہ ٹھپ ہو کر رہ گیا گزشتہ دو سالوں سے اس بارے میں پھر ہنگامہ ہوا لیکن ابھی تک معاملہ کسی طر ف جاتا دکھائی نہیں دے رہا۔ انسانی جانوں کے ضیاع کا یہ معاملہ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔پولیس مقابلے میں بے گناہ ہلاکتوںکامعاملہ گزشتہ سال ایک بار پھر بڑے زوروشور سے اٹھا جب نقیب اللہ محسود کا قتل ہوا اور ہر سندھ حکومت کے چہیتے رائو انوار کے قصے کھلنے لگے۔ اب تو رپورٹ بھی آ گئی ہے کہ وہ اس ماوارئے عدالت قتل میں ملوث ہے۔ عابد باکسر اور رائو انوار کے معاملے میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ انکے حمایتی انہیں دہشت گردوں کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ اور یہ ہتھیار اس وقت تیار کرنے شروع کئے گئے جب حکومتوں اور اداروں کو فرقہ وارانہ دہشت گردی اور کراچی میںسیاسی مخالفین کے قتل عام کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے قانون کاراستہ مشکل نظر آیا۔نظام کو چلانے کے لئے ایک ایسے راستے کو منتخب کیا گیا جس میں رائو انوار اور عابد باکسر تو پیدا ہوتے رہیں گے لیکن قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہو پائے گی۔ پولیس مقابلہ ہی نہیں بلکہ پولیس کی تحویل میں تشدد سے اموات ہوتی آ رہی ہیں۔ اس بارے میں جب عدلیہ نے نوٹس لینا شروع کیا توپولیس والوں نے اپنے پرائیویٹ سیف ہائوسز قائم کر لئے جہاں پر انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے اور آئے دن آپ لواحقین کی فریاد سنتے ہونگے کہ انکے کسی عزیز کی پولیس تشدد سے موت واقع ہو گئی ہے جس کو کور اپ کرنے کے لئے پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کی مدد کو نکل پڑ تی ہے۔اس ماہ صرف فیصل آباد میں دو زیر تحویل ملزمان کی ہلاکت ہو چکی ہے۔تھانے عام عوام کے لئے نو گو ایریاز بن چکے ہیں اگر کسی کو کام بھی پڑ جائے تو سو مرتبہ سوچتا ہے کہ جائے کہ نہ جائے۔ اگر مجبوراً جانا بھی پڑ جائے تو تھانے کے اندر داخل ہونا اور متعلقہ عملے تک رسائی ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ایک خاص قسم کے ماحول میں رہتے رہتے پولیس کا ایک خاص مزاج بن چکا ہے۔عام عوام کے لئے انکے دلوں میں احترام اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔جب با اثر سیاستدان اور افسر اپنی مرضی سے انکی تعیناتیاں کرینگے تو عوام سے زیادہ انکی خوشنودی اہم ہو گی۔ اسکے تدارک کا راستہ پولیس کو مکمل غیر سیاسی بنانا،اداروں کا استحکام، انکی عوام کے نظر میں پختہ ساکھ، پیشہ ور پولیس فورس اور مؤثر عدالتی نظام ہے۔