مکرمی ! سماجی رویے کسی بھی قوم کے اخلاق کو چانچنے کا پیمانہ ہوا کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارے اخلاق گرے رہے ہیں ہم ٹریفک سگنل توڑ کر اس کی پا مالی لائسنس کے بغیر گاڑی ہم چلاتے ہیں ۔پہلے ہم کچھ لے دے کر بات کو خود ختم کرنے کی بات کرتے ہے اور بعد میں بدنام پولیس کوکرتے ہیں۔ آج ہم ایک دوسرے کو جگہ نہ دے کر گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنا قبول کرتے ہیں اور پھر اداروں کو کوستے ہیں اشیاء خوردنوش میں وزن کو گھٹا کر عوام کو ہی دھوکہ دیتے ہیں اور پھر حکومت سے ناانصافی کا گلہ کرتے ہیں ، استاد کا آج کے دور میں مقصد تعلیم دینے سے زیادہ پیسہ کمانا ہوگیا ہے نہ صرف یہ بلکہ زندگی کے محافظ بیماریاں بیچ رہے ہیں اور علاج کے نام پر بھاری فیس وصول کررہے ہیں ، لوگ اپنی ذمہ داریاں بھول گئے ہیں لیکن لوگوں کے فرائض کو یاد رکھے ہوئے ہیں ، لوگوں کے ضمیر مکمل طورپر مر چکے ہیں ، چلئے ایک پل کو مان لیتے ہیں کہ حکومت نااہل، حکمران بھی غلط، سب کچھ غلط لیکن کیا ہم نے ایک دفعہ بھی یہ سوچنے کی زحمت گوراکی کہ ہم خودکس حد تک درست ہیں؟نہیں !بلکہ ہم نے خود کو کبھی راہ راست پر لانے کے بارے میں سوچا ہی نہیں ، جتنا دھیان ہم نظام کو تنقید کرنے میں دیتے ہیں خود کو سدھارنے میں دیں تو کیا سے کیا ہوجائے ۔ (نمرہ فاطمہ جامعہ کراچی)