وزیراعظم عمران خان کو وفاقی حکومت بنائے تین برس ہوگئے ۔ عمومی‘ مجموعی تاثر یہ ہے کہ وہ ملک کے نظام میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لاسکے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ عمران خان نے اقتدار میں آکر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دولت نہیں بنائی ۔ نہ نیا بنگلہ بنایا۔ نہ کوئی کارخانہ لگایا۔ نہ بیرون ملک کوئی جائیدادخریدی۔ انکے قریبی ساتھیوں جیسے اسد عمر‘ حماد اظہر وغیرہ پر بھی اس قسم کا کوئی الزام نہیں ہے۔ پاکستان ایسے ترقی پذیر ملک میں جہاں کرپشن عام ہے اور گزشتہ تیس برسوں میں آنے والے حکمران دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹتے رہے ہیں کسی ایسے شخص کا حکمران ہونا جو ذاتی طور پر کرپٹ نہ ہو ایک بہت اہم بات ہے۔البتہ یہ بھی درست ہے کہ ملک بھر میں اوپر سے نیچے تک سرکاری دفاتر میں رشوت خوری میں کمی نہیں آسکی۔ تحریک انصاف کی حکومت سرکاری افسروں کی بددیانتی پر قابو نہیں پاسکی۔ عام آدمی کو سرکاری شعبہ میں جا کر اب بھی بیشتر کام کاج رشوت دیکر ہی کروانے پڑتے ہیں۔ کرپشن کا کلچر ختم نہیں کیا جاسکا۔ بلکہ یہ زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ احتساب کے قومی ادارہ نیب کا موقف ہے کہ اس نے تین برسوں میں سوا پانچ سو ارب روپے سے زیادہ کرپٹ افراد سے برآمد کیے اور قومی خزانہ میں جمع کروائے ہیں۔اسکے باوجو د سرکاری عملہ کی کمیشن خوری ‘ رشوت خوری کم نہیں ہوسکی۔ وفاقی حکومت نے چارسُو پھیلی اس بددیانتی کے سدباب کیلیے کوئی نیا قانون نہیں بنایا۔ اداروںکی ساخت میں تبدیلیاں نہیںکیں۔ سول سروس کے نظام کو تبدیل نہیں کرسکی۔ اسکے برعکس نیب کے قانون کو سرکاری افسروں کو تحفظ دینے کی خاطر نرم بنایا گیا ہے۔ جب عمران خان کی حکومت بنی تو ایک سال تک سرکاری افسروں نے عدم تعاون کا روّیہ اختیار کیے رکھا۔ وہ فائلیں پر دستخط نہیں کررہے تھے۔ ہر کام التوا کا شکار تھا۔ سرکاری کام کاج سست پڑ گیا تھا۔ انکا موقف تھا کہ وہ کوئی فیصلہ کریں گے تو ڈر ہے کہ نیب انکو کرپشن کے الزام میں دَھر لے گا۔حکومت نے نیب قانون مین تبدیلی کی کہ جس سرکاری افسر پر کوئی الزام ہواس کے خلاف پہلے صوبہ کا چیف سیکرٹری کاروائی کرے گا ۔ اسکی منظوری کے بعد نیب اس پر ہاتھ ڈال سکے گا۔ لگتا نہیں کہ سول سروس کی مکمل اوور ہالنگ کیے بغیر کرپشن کی بیخ کُنی ممکن ہے۔ تبدیلی کے خلاف مزاحمت صرف سرکاری افسروںتک محدود نہیں ہے۔ وہ تمام طبقات اور گروہ جن کے مفادات موجودہ نظام سے وابستہ ہیں وہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک کے بعد وکلا ء کی ایک طرح سے آمریت قائم ہوگئی ہے۔ وہ معمولی باتوں پر عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کردیتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن میں وکلاء نے ججوں کو کمروں میں بند کردیا‘ انکو گالیاں دیں‘ اُن سے مار پیٹ کی۔ججوں کے کمروں کو توڑا پھوڑا۔ اعلیٰ عدلیہ متعدد انتظامی معاملات پر ازخود نوٹس لیکر احکامات جاری کرتی ہے۔ آئے دن سرکاری افسروں کی سرزنش کی جاتی ہے۔ لیکن عدالتی نظام کی سست رفتاری اور دیگرخامیوں کو دُور کرنے کے لیے کبھی ازخود نوٹس لیکر فیصلہ کُن اقدام نہیں کیا جاتا ۔ لاکھوں سائلین اپنے تنازعات کے حل کیلیے مدتوں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ عام لوگوں کو زیادہ تر واسطہ توماتحت عدالتوں سے پڑتا ہے۔ اگر حکومت قانون سازی کرکے اور بجٹ میں عدلیہ کا حصہ بڑھا کر جوڈیشل مجسٹریٹوں اور سول ججوں کی تعداد ہی بڑھا دے تو عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا۔ مقدمات کی سماعت جلد مکمل ہوجایا کرے گی۔ ایک ایک جج کے پاس سو سو‘ڈیڑھ ڈیرھ سو مقدمے لگے ہونگے تو وہ انکو جلد کیسے نمٹا سکتا ہے؟افسوس یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جونیا پاکستان بنانے کے دعوے کے ساتھ آئی تھی اب تک عدالتی‘ قانونی نظام میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی نہیں لاسکی۔مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن کے بعد تحریک انصاف اور اسکے اتحادیوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ میں سادہ اکثریت ہے۔ حکومت چاہے تو کوئی قانون پارلیمان سے منظور کرواسکتی ہے۔ اگر سینٹ میںمزاحمت ہو تو یہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس بلواکرقانون سازی کرسکتی ہے۔ ہر کام جُوں کاتُوں چل رہا ہے۔ کسی شعبہ میںمثبت تبدیلی نہیں آرہی۔ معیشت کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ ہمارے ملک کا دیرینہ مسئلہ یہ ہے کہ خوشحال طبقہ ریاست کو پُورا ٹیکس نہیںدیتا۔ بڑے بڑے زمیندار جو کروڑ پتی‘ ارب پتی ہیں وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔صوبائی حکومت ان سے بہت معمولی سا مالیانہ‘ آبیانہ اور زرعی ٹیکس لیتی ہے جس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ساٹھ لاکھ سے زیادہ پرچون فروش دُکاندار ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ پیشہ ور ماہرین اور بڑے کاروباری ادارے ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔اگر ان پر سختی سے ٹیکس لگایا جائے تو یہ ہڑتالیںکرنے لگتے ہیں۔ حکومت انکے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ حکومت کا نظام پہلے بھی قرضوں پر چل رہا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد بھی قرضوں کے سہارے معیشت کی گاڑی کو دھکا لگایا جارہا ہے۔ حکومت میںاتنی اہلیت اور جرات نہیں کہ طاقتور‘ امیر لوگوںپر مضبوطی سے ہاتھ ڈالے اور ٹیکس وصول کرے۔اس پر جب مشکل پڑتی ہے‘عام آدمی پر بالواسطہ ٹیکس کی شرح بڑھا دیتی ہے جس سے مہنگائی بڑھتی جاتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں پچاس سے ڈیڑھ سو فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ آمدن مین اتنا اضافہ نہیں ہوا۔ عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ پاکستان کی معیشت ایک جوئے خانہ کی معیشت بن گئی ہے جس میں لوگ پراپرٹی اور اسٹاک مارکیٹ میں سٹے بازی کررہے ہیں‘ مال بنا رہے ہیں۔ محنت کش‘ سفید پوش افراد بُری طرح پس رہے ہیں۔ ملک کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو خوشحال طبقات سے ٹیکس وصول کرسکے۔ انکی ہڑتالوں اور احتجاج کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے۔ ریاست کی عملداری قائم کرے۔ اگر وزیراعظم عمران خان واقعی نظام کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو انکو اپنے سیاسی مفاداور اپنی پارٹی تحریک انصاف کے فائدہ نقصان سے بُلند ہوکر فیصلے کرنا ہوں گے۔