مکرمی! وطن عزیز میں رائج نظام وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں پر مبنی ہے جو میرٹ ، فریڈم ، مساوات ، اور انفرادیت کا جھنڈا لہرائے ہوئے ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہماری کردارسازی کے دو بڑے ادارے ( گھر اور سکول) اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔گھر میں کردار کی تعمیر کے مراحل کے دور ان ان جمہوری اصولوں کے بالکل الٹ سکھایا جاتا ہے۔ گھر میں میرٹ کی بجائے ذاتی عزت، لالچ، احسان مندی اور اپنی برادری کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ پھر وہی بچہ جب بڑا ہو کر کسی سرکاری ادارے میں جاب حاصل کر لیتا ہے تو وہ گھر میں سیکھے گئے اصولوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے اور میرٹ کی دھجیاں اڑاتا ہے پھر اسی سٹیج پر جمہوریت کے تمام اصول قربان ہو جاتے ہیں۔ کردارسازی کا ایک اور ادارہ سکول، کالج،یونیورسٹی ہے جب سکول میں کردار سازی، تنقیدی سوچ،مسائل کو حل کرنے کی مہارت سکھانے کی بجائے طالب علموں کو پسند نا پسند کی بنیاد پر نمبر بانٹے جائیں اور پانچویں ،آٹھویں کے امتحانات میں نقل کے گر سکھائے جائیں اور یونیورسٹیاں ڈگریاں بانٹ رہی ہوں تو پھرہم اس تعلیمی نظام سے کردارسازی کی امید کیسے کر سکتے ہیں اسی تعلیمی نظام کی پیداوار پھر وہی بیسویں گریڈ کا آفیسر ہوتا ہے جو کویت کے وفد کا بٹوا چرا لیتا ہے۔ (حمزہ سوانسی)