دنیا بھر کی طرح پیر کے روز پاکستان کے مختلف شہروں میںخواتین کا عالمی دن منایا گیا اور ریلیاں نکالی گئیں لیکن گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی اس دن کی سرگرمیوں پر بعض مراعات یافتہ اور مخصوص طبقے کی خواتین کا قبضہ رہا ۔خواتین کا وہ طبقہ جو واقعتاًمعاشی اور سماجی مشکلات کا شکار ہے، ان کی نمائندگی ان سرگر میوں میں نہ ہونے کے برابر تھی ۔ تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو 8مارچ دراصل لباس سازی کی صنعت سے وابستہ ان محنت کش خواتین کی جدوجہد کا دن ہے جو معاشی نا انصافی کے خلاف باہر نکلیں اور دنیا بھر کی خواتین کو اپنے حقوق کے تحفظ کا احساس دلایا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دن عورتوں کی آزادی کا نہیں، حقوق کے تحفظ کا دن ہے۔پاکستانی معاشرہ میں پس ماندہ طبقات کی لاکھوں خواتین آج اپنے حقوق کے تحفظ کی طلبگار ہیں جس کیلئے انہیں معاشرے کے تمام انصاف پسند طبقات کی حمایت حاصل ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غربت، گھریلو تشدد اور مسائل کی شکار خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مرد حضرات بھی باہر نکلیں۔ ان کے مسائل کو محض ان چند مخصوص اورمراعات یافتہ خواتین گروپوں پر نہ چھوڑا جا ئے جنہیں سرے سے ان مصائب و مشکلات کا سامنا ہی نہیں ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری ادروں اور تنظیموں کو ان لاکھوں بے سہارا،مجبور،اور تشدد کی شکار خواتین کے حقوق کے تحفظ کو اپنی سرگرمیوں کا موضوع بنانا چاہیے جو اپنے مخصوص دیہی پس منظر کی وجہ سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں اور خواتین کا ایک خوشحال اور مراعات یافتہ طبقہ ان کا نام استعمال کرکے ان کا استحصال کرتا ہے۔