٭ حضرت مولانا عبدالرحمن جامی ؒ مشہور فارسی شاعر اور صوفی بزرگ تھے اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ صوفی منش لوگ بھی ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک مہمل گو شاعر جس کا حلیہ صوفیوں جیسا تھا۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سفر حجاز کی طویل داستان کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے دیوان سے مہمل شعر بھی سنانے لگا اور پھر بولا: ’’میں نے خانہ کعبہ پہنچ کر برکت کے خیال سے اپنے دیوان کو حجرِ اسود پر ملا تھا۔‘‘ یہ سن کر مولانا جامیؒ مسکرائے اور فرمایا:’’حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ تم اپنے دیوان کو آب زم زم میں دھوتے۔‘‘ ٭ ایک شاعر نے مولانا جامی کو اپنی ایک غزل سنائی اور کہا میں چاہتا ہوں اسے شہر کے دروازے پر لکھ کر لٹکا دوں تاکہ لوگ پڑھیں اور اس کی شہرت ہو۔ مولانا نے فرمایا کہ ان لوگوں کو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ یہ تمہاری غزل ہے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ لٹک جائو تاکہ لوگ غزل پڑھیں اور تمہیں داد دیتے ہوئے جائیں۔ ٭ جاڑے کے موسم میں ایک دن طوطے کا پنجرا سامنے رکھا تھا۔ طوطا سردی کے سبب پروں میں منہ چھپائے بیٹھا تھا‘ مرزا غالب نے دیکھا تو کہا: ’‘میاں مٹھو! نہ تمہاری جورو ‘ نہ بچے ‘ تم کس فکر میں یوں سر جھکائے بیٹھے ہو۔‘‘ ٭ مرزا غالب نے حضرت صاحب عالم مارہروی سے ان کا سن ولادت دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا سال ولادت لفظ’’تاریخ‘‘ سے نکلتا ہے جس کا عدد 1211ہجری ہے۔ مرزا کی ولادت 1212ہجری میں واقع ہوئی تھی‘ چنانچہ اس کے جواب میں مرزا نے یہ شعر لکھ بھیجا: باتف غیب سن کے یہ چیخا ان کی تاریخ‘ میرا تاریخا ٭ آموں کا موسم تھا۔ بہادر شاہ ظفر چند مصاحبوں کے ہمراہ جن میں مرزا صاحب بھی تھے باغ حیات بخش یا مہتاب باغ میں گشت کر رہے تھے۔ آم کے درخت رنگ برنگ کے آموں سے لد ے تھے۔ یہاں کے آم اعلیٰ درجے کے ہوتے تھے اور صرف بادشاہ اور بیگمات کے لئے مخصوص تھے یا دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کو تحفہ کے طور پر بھیجے جاتے تھے۔ مرزا صاحب کو آم بالطبع مرغوب تھے اور درختوں پر آموں کو بار بار غور سے دیکھتے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا: ’’مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟‘‘ مرزا نے دست بستہ عرض کیا: ’’پیرو مرشد! یہ جو کسی بزرگ نے کہا ہے: برسر ہر دانہ نبوشتہ عیاں کز فلاں ابن فلاں ابن فلاں‘‘ ’’اس کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانہ پر میرا اور میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں۔‘‘ بادشاہ یہ سن کر مسکرائے اور اسی روز مرزا صاحب کو عمدہ عمدہ آموں کی ایک ٹوکری بھجوائی۔ ٭ ایک روز کا واقعہ ہے مرزا غالب اور ان کی بیگم بعداز موت عاقبت اور مغفرت کے مسائل پر بحث کر رہے تھے‘ مرزا کی بیگم بولیں: ’’روزہ رکھنا تو دور کی بات ہے آپ نے تو کبھی نماز بھی نہیں پڑھی اور عاقبت سنوارنے کے لئے کم از کم نماز روزہ کی پابندی کرنی ہی پڑتی ہے۔‘‘ مرزا نے جواب دیا::’’آپ بلا شبہ درست فرما رہی ہیں لیکن یہ بھی دیکھ لینا کہ آپ سے ہمارا حشر اچھا ہی ہو گا۔‘‘ بیگم بولیں::’’وہ کیونکر؟کچھ ہمیں تو بتائیے‘‘ ’’بھئی بات تو بالکل سیدھی ہے۔‘‘ مرزا نے کہا:’’آپ تو انہی نیلے تہبند والوں کے ساتھ ہوں گی جن کے تہبند کے پلومیں مسواک بندھی ہو گی‘ ہاتھ میں ایک ٹونٹی دار لوٹا ہو گا اور انہوں نے اپنے سر بھی منڈوا رکھے ہونگے۔ آپ کے برعکس ہمارا حشر یہ ہو گا کہ ہماری سنگت بڑے بڑے ‘ شہرت یافتہ بادشاہوں کے ساتھ ہو گی۔ مثلاً ہم فرعون ‘ نمرود اور شدا دکے ساتھ ہوں گے۔ ہم اپنی مونچھوں کو بل دے کر اکڑتے ہوئے زمین پر قدم دھریں گے۔‘‘ ٭ ایک بار حضرت داغ اپنے ساتھیوں سمیت پھول والوں کی سیر میں گئے۔ داغ پان کے رسیا تھے۔ ایک نوجوان اور شوخ پنواڑن کی دکان سجی دیکھ کراس کی طرف بڑھے اور پنواڑن سے بولے:’’بی پنواڑن ! دس پان لگانا۔‘‘ پنواڑن نے جوتی کی نوک پر ہاتھ لگا کر کہا::’’کیا فرمایا‘ کتنے لگائوں؟‘‘ مرزا داغ جھینپ گئے اور پنواڑن سے صحیح محاورہ سن کر چوکڑی بھول گئے اور سنبھل کے بولے:’’دس پان بنانا۔‘‘ دلی کی پنواڑنیں بھی بامحاورہ اردو بولتی تھیں۔ ٭ نامور ادیب مولوی نذیر احمد حیدر آباد میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ان کا تبادلہ کسی دوسرے شہر ہو گیا۔ وہاں کے ایک رئیس ان سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ دوران ملاقات انہوں نے جیب سے اپنا شجرۂ نسب نکالا اور پڑھ کے بتانے لگے:’’فلاں رشتے میں ہمارے دادا لگتے ہیں۔ فلاں ہمارے چچا ہیں فلاں ماموں لگتے ہیں۔‘‘ نذیر صاحب ان کی گفتگو سن کر طیش میں آ گئے اور کہنے لگے: ’’معاف کیجئے گا ‘ اس وقت میرا شجرہ‘ نسب ہمراہ نہیں ورنہ میں آپ کو بتاتا کہ ہمارا شجرہ‘ نسب بھی حضرت آدم سے ملتا ہے۔‘‘ ٭ برطانیہ کے مشہور مزاح نگار ادیب جارج برنارڈ شا لندن کے ایک ہال میں سرمایہ داری کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ وہ مجمع کو سرمایہ داروں کے خلاف خوب مشتعل کر چکے تو پرجوش لہجے میں بولے:’’ہال کے باہر جو کاریں کھڑی ہیں۔ وہ تمہارے خون پسینے کی کمائی ہے۔ جائو ان کو جلا کر راکھ کر دو۔‘‘ مشتعل ہجوم ان کاروں کی طرف دوڑا برنارڈشا نے چلا کر کہا:’’ذرا ٹھہرو!! باہر جو نیلے رنگ کی BX221رولز رائس کھڑی ہے اسے مت جلانا یہ تمہارے غریب ادیب برنارڈشا کی ہے۔‘‘ ٭ جارج برناڈشا کے زمانے میں مشہور موسیقار آرسٹرانگ کی بہت شہرت تھی اور برنارڈشا اس سے جلتا تھا۔ ایک دن آرسٹرانگ نے سوچا کہ برناڈشا سے ملاقات کرنی چاہیے۔ چنانچہ وہ اس کے گھر پہنچا۔ اسے دیکھتے ہی جارج برناڈشا نے سر پکڑ لیا اور بہانہ بنانے لگا کہ میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے آرسٹرانگ نے ہمدردی سے کہا: ’’کیا میں آپ کے سرد درد کو دور کرنے کے لئے کوئی دھن سنائوں؟‘‘ ’’خدا کے لئے …یہ ہرگز نہ کرنا۔تمہاری دھن سے زیادہ سریلا تو میرا سر درد ہے۔‘‘برنارڈشا نے کہا۔ ٭ اسلامیہ کالج لاہور میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا۔ علامہ اقبال صدارت گاہ کے عقب میں برآمدے کے پاس کھڑے۔ میاں شاہنواز سے باتیں کر رہے تھے۔ کسی نے کہا آپ نے ’’ٹائمز‘‘ کی یہ خبر پڑھی کہ آرچ بشپ آف کنڑبری نے کہا ہے کہ ترکوں نے آرمینیوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان سے اسلام کا چہرہ داغ دار ہو گیا ہے۔ اب جبکہ جنگ ختم ہو چکی ہے‘ مسلمانان ہند کو چاہیے کہ اور نہیں تو محض اسلام کی خاطر ہم سے مل جائیں اور ترکوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس پر میاں صاحب کو بے اختیار ہنسی آ گئی‘ کہنے لگے:’’خوب !بلی‘ چوہے کو دعوت اتحاد دے رہی ہے۔ اس پر علامہ اقبال نہایت محظوظ ہوئے اور برجستہ یہ قطعہ ارشاد فرمایا: اخبار میں یہ لکھتا ہے لندن کا پادری ہم کو نہیں ہے مذہب اسلام سے عناد مسلم بھی ہوں حمایت حق میں ہمارے ساتھ مٹ جائے تاجہاں سے بنائے شروفساد سن کر یہ بات خوب کہا شاہنواز نے بلی چوہے کو دیتی ہے پیغامِ اتحاد!