چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ جو اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے ہیں‘ نے وزیراعظم عمران خان کے ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب میں غصیلے خطاب جس میں انھوں نے موجودہ چیف جسٹس اور آنے والے چیف جسٹس گلزار احمد کو تلقین کی تھی کہ وہ عدلیہ کے بارے میں یہ تاثر دور کریں کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہے ،ایسی اصلاحات لائیں جن سے ہمارا قانون ایسا ہو کہ کمزور سے کمزور آدمی بھی جب طاقتور کے سامنے کھڑا ہو تو اسے اعتماد ہو کہ اسے انصاف ملے گا،کا ٹھونک بجا کر جواب دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی موبائل ایپ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں ،ہمارے سامنے کوئی طا قتور نہیں ،’’جن کو‘‘ باہر بھیجا گیا’’ ان کو‘‘ آپ نے اجازت دی ، ہائیکورٹ میں صرف طریقہ کار پر بحث ہوئی ، ہمارے سامنے کوئی طاقتور نہیں سب برابر ہیں ،وزیراعظم چیف ایگزیکٹو اور ہمارے منتخب نمائند ے ہیں ،وزیراعظم اپنے بیان پر غور اور احتیاط کریں ،ججز کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ،اپنے وسائل سے کام کر رہے ہیںکبھی سرکار سے ایک آنہ نہیں مانگا ،دو تین کے سوا 36لاکھ ناتواں لوگوں کو انصاف دیا جن کو وزیراعظم جانتے بھی نہیں ہونگے ، ایک خاموش طوفان آ چکا ہے ، اگر کو ئی شخص میڈیا کی مہربانی سے طاقتور بن گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان لا کھوں افراد کو بھول جائیں جنہیں عدلیہ سے انصاف ملا ،پولیس ریفارمز کی وجہ سے ایک لاکھ مقدمات عدالتوں میں نہیں آئے ،عدلیہ نے ماڈل کورٹس بنانے کا قدم اٹھایا مگر ہم نے کوئی ڈھنڈورا پیٹانہ اشتہار لگایا ۔ چیف جسٹس کی اس بات سے تو اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ وزیراعظم نے ’’انھیں ‘‘خود بھیجا اور لاہور ہائیکورٹ نے اس معاملے میں طریقہ کار متعین کیا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہمارا موازنہ 2009ء کی عدلیہ سے نہ کریں ،اس کے بعد عدلیہ مختلف اور آزاد ہے اور اس ضمن میں انھوں نے ریکارڈ درست کرنے کے لیے یہ بھی کہا کہ ایک وزیراعظم کو سزا دی،دوسرا نا اہل کیا ،مزید برآں انھوں نے انکشاف کیا کہ اب سابق آمر جنرل (ر) پرویزمشرف کیس کا فیصلہ آنے والا ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا عدلیہ کی حسن کارکردگی کے بارے میں دعویٰ سر آنکھوں پر اور اس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے لیکن گزشتہ روز چودھری اعتزاز احسن جو جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک کے سرخیل تھے ‘نے چینل 92پر میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے ‘ میں بتایا کہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں قربانیاں تو وکلا نے دیں ،لاٹھیاں کھائیں، گرفتاریاں دیں، جج صاحبان تو گھروں میں بیٹھے رہے اور واپس آ کر کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ عدلیہ کا ماضی زیادہ درخشاں نہیں ،ماضی میں عدلیہ نے آنے والے ہر فوجی آمر کے اقتدار پر شب خون مارنے کے اقدام پر مہر تصدیق ثبت کی۔ جسٹس قیوم ،جسٹس ڈوگر ، جسٹس ارشاد حسن خان ، مولوی مشتاق حسین ،جسٹس انوارالحق اور ان سے پہلے جسٹس محمد منیر کے فیصلوں نے اچھی روایات قائم نہیں کیں ۔پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو شہید کا جس انداز سے جوڈیشل مرڈر کیا گیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔آج وہ سیاستدان جو ذوالفقار علی بھٹو کے سخت مخالف تھے اور انھیں منظر عام سے ہٹانے میں شریک تھے تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے جنرل ضیاء الحق کی ملی بھگت سے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی اور جسٹس انوارالحق نے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ 2009 ء کے بعد بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال سامنے آئی جب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری تو آزاد ہو گئے لیکن عدلیہ نہیں۔ انھوں نے بعض ایسے فیصلے کیے جنہیں متنازعہ ہی قرار دیا جاتا ہے ۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت پر گھر بھیجنا کہاں تک جائز تھا۔ان پر محض یہ الزام تھا کہ انھوں نے صدر مملکت کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر عدلیہ کی حکم عدولی کی ہے ۔سٹیل ملز کی نجکاری روکنے، ریکوڈک کیس میں ان کے فیصلے پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کا باعث بنے۔ان کے صاحبزادے ارسلان افتخار کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے چرچے تھے اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض نے ان کے خلاف ثبوت بھی فراہم کر دیئے تھے لیکن جج صاحب نے اپنی منجھی تلے ڈانگ نہیں پھیری۔ اسی رویے کی بنا پر اعتزازاحسن جو ان کے مددگار،سکرپٹ رائٹر اور وکیل تھے ، ان سے دور ہو گئے ۔حال ہی میں چیف جسٹس کھوسہ کے پیشرو چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور بھی قابل رشک نہیں تھا ،انھوں نے تابڑ توڑ سو موٹو نوٹس لے کر اپنی حدود سے خاصا تجاوز کیا ۔ان دونوں سابق چیف جسٹس صاحبان نے اپنے اپنے دور میں عدالتی تحمل کی دھجیاں اڑائیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کو زراعت اور بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے لیے ڈیم فنڈ بنانے کا عدلیہ سے کیا تعلق ؟۔یہ محض ایک ڈھونگ تھا جس میں تحریک انصاف کی حکومت بھی شامل ہو گئی کیونکہ ڈیم بنانا اتنا مہنگا سودا ہے جو محض چندے بازی سے نہیں بن سکتے۔ اسی طرح پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کا کام روکنا ،نجی ہسپتالوں پر چھاپے اور ان کے منتظمین کی میڈیا کیمروں اور سب کے سامنے توہین ہماری حالیہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ مقام شکر ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ،ان کے ساتھی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور لاہور ہائیکورٹ کے جج صاحبان بھی صدق دلی اور دلجمعی سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں،اس ضمن میں انھیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا ججوں کے بارے میں رویہ بھی تضادات کا شکار ہے ۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں آ جائے تو سب اچھا ہے لیکن اگر ان کی مرضی کے خلاف ہو تو عدلیہ کو پارٹی کے سوشل میڈیا پر کھلاڑیوں کے ہاتھوں بددیانت اور شریفوں کے تنخواہ دار تک کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا ۔ وزیراعظم عمران خان کی حویلیاں میںتقریر بھی اسی رویے کی غمازی کرتی ہے ۔حالیہ عدالتی فیصلوں پر مختلف چینلز پر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے عدلیہ مخالف بیان دیئے جن کی بنا پر فردوس عاشق اعوان اور غلام سرور خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس بھی دیئے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ مشرف کیس کا فیصلہ بھی جلد آنے والا ہے ،یہ کوئی ایسی بات نہیںہے جس پر فخر کیا جائے ۔قیام پاکستان کے دس برس بعد ہی مولوی تمیزالدین کیس میں عدلیہ نے قانون ساز اسمبلی کی برطرفی کو جائز قرار دے دیا۔یہاں سے ہی ’’نظریہ ضرورت‘‘کی اختراع کے تحت ہر آمر مطلق کو عدلیہ نے دوام بخشا۔1958ء میںجسٹس منیر نے ڈوسو بنام ریاست کیس میں ایوب خان کی آمریت کو جائز قرار دیا تھا۔جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے، انصاف کے تقاضے تب پورے ہونگے جب آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کسی آمر کو سنگین غداری کا ذمہ دار اس وقت قرار دیا جائے جب وہ برسر اقتدار ہو ۔پرویز مشرف کو کس خوبصورتی سے پاکستان سے رخصت کیا گیا اور وہ دبئی اور لندن میں دولت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ ان سے تو کوئی منی ٹریل نہیں مانگی گئی ۔ اب اگر انھیں سنگین غداری کا مرتکب قرار د ے بھی دیا جائے توانھیں کیا فرق پڑتا ہے ۔شاید مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر جس طرح سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کو لینے لندن گئے تھے اب جنرل پرویز مشرف کو بھی لینے دبئی چلے جائیں۔