جمہوریہ چین اپنے قیام کے اعلان یعنی 1949 ء کے ساتھ ہی بھارت کے لئے خطرے کا نشان بن گیا تھا جو خطے میں اپنی بالادستی چاہتا تھا ۔ یہ امر دل چسپی کا باعث ہے کہ پاکستان تو امریکہ کی چھتری تلے سیٹو اور سینٹو کا رکن رہا جو سوویت روس کی نظریاتی اور عسکری نفوذ پزیری کے خلاف تشکیل کردہ ٹرومین ڈاکٹرائن کا تسلسل تھا اور پاکستان کے واحد فیلڈ مارشل ایوب خان اس کا برملا اور فخریہ اظہار کرتے تھے کہ پاکستان سینٹو کا واحد جنوبی ایشیائی ممبر ملک ہے لیکن اسی روس کے قریبی اتحادی بھارت کے ساتھ بھی امریکہ چین کے ابھرتے ہوئے خطرے کے خلاف کھڑا رہا۔ چین کے مشترکہ خطرے نے دونوں ممالک کو جہاں تعاون پہ آمادہ کیا وہاں روس ہمیشہ سے ایک طاقتور حریف کے طور پہ موجود تھا۔ طرفہ تماشہ یہ تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے اسی چین کا منظور نظر تھا جو نظریاتی طور پہ کبھی کمیونسٹ روس کے قریب رہا تھا۔اور اس نے چین کو اقوام متحدہ کا ممبر بننے کے لئے مدد بھی کی تھی۔ رو س میں ولادی میر لینن کی قیادت میں کمیونزم کی ابتدا یعنی 1917 کے تین سال بعد کمیونسٹ گماشتہ گریگوری ووتنسکی چین پہنچا جہاں اس نے کمیونزم کی تبلیغ شروع کی اور کمیونسٹ بلاک بنانے کی بنیاد ڈالی۔ اس نظریاتی قربت میں دراڑ شروع سے موجود تھی جو بعد میں بڑھتی گئی گو اس کا زیادہ تعلق طریقہ کار سے تھا۔ عظیم ماوزے تونگ کے ملک کی اکثریت کسانوں پہ مشتمل تھی اور کمیونسٹ روس میں انقلابی اشرافیہ تیزی سے پھل پھول رہی تھی۔انقلاب حسب عادت اپنے بچوں کو کھا رہا تھا۔ غالبا ً قول و فعل کا یہی تضاد ماو کو نہیں بھایا اور انہوں نے بھانپ لیا کہ لینن کا کمیونسٹ روس تیزی سے اسی اشرافیہ کو جنم دے رہا ہے جس سے اس نے جان چھڑائی تھی۔ پھر بھی پچاس کی دہائی تک یہ اشتراکی محبت قائم رہی۔ بعد ازاں جوزف اسٹالن کے مرنے کے بعد خروشیف نے جب اسٹالن کی پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کیا تو اختلافات نمایاں ہوتے گئے۔ 1953 ء سے 1964 ء تک جب روس خرشچیف کی قیادت میں تبدیلیوں سے گزررہا تھا تو چین میں دو اہم تحریکیں گریٹ لیپ فارورڈ اور ثقافتی انقلاب بپا تھیں۔کسانوں سے زمینیں چھینی جارہی تھیں اور سرکاری سرپرستی میں ثقافتی حدود بھی تبدیل ہورہی تھیں۔ادھر خردشچیف کا روس باہر کے سرمایہ دار مغرب کے ساتھ پینگیں بڑھانے کا خواہشمند تھا اور ماوزے تنگ کا کمیونسٹ چین مغرب سے متنفر اشتراکی معیشت کا علمبردار تھا۔ بالاخر یہ نظریاتی دراڑ اتنی بڑھی 1966 ء میںروس اور چین کے راستے علیحدہ ہوگئے ۔ اس کے چھ سال بعد 1972 ء میں امریکی صدر نکسن نے چین کا دورہ کیا جو دونوں ممالک کے درمیان پچیس سال میں پہلا رابطہ تھا۔ چو این لائی اور صدر نکسن ملاقات میں پاکستان کا کردار رشتے کرانے والی مائی جیسا تھا اور اس کی کوششیں کئی سال قبل سے ہوتی رہی تھیں ۔ ہنری کسنجر نے پاکستان کے یحییٰ خان کے ساتھ 1970 ء میں صدر نکسن کی ہدایت پہ ملاقات کی تاکہ اس بار چین میں ان کا پیغام درست طور پہ پہنچ سکے۔ وہ رومانیہ کے ساتھ بھی اسی سلسلے میں رابطے میں تھے اور اپنے اور چو این لائی کے ایک مشترکہ دوست کی وساطت سے بھی اس کوشش کو کامیاب کرنا چاہتے تھے۔روس سے دور ہوتا چین بڑا دلکش نظر آتا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس بار خود چو این لائی نے پاکستان کی وساطت سے نکسن کو پیغام بھجوایا کہ وہ ملاقات کے متمنی ہیں۔یہ ملاقات ہوئی اور اسے آخری وقت تک پاکستان کی معاونت سے سابقہ محبوب روس کی بری نظر سے بچا کر رکھا گیا۔ایسا نہیں تھا کہ امریکہ کو چین سے کوئی محبت تھی لیکن یہ وقت کی ضرورت تھی کہ اسے دور ہوتے ہوئے سوویت روس کے سامنے تنہا نہ چھوڑا جائے۔ اس بات کا اندازہ امریکہ کو ہمیشہ سے تھا کہ اگر چین کو اس وقت لگام نہ ڈالی گئی تو اس کی بڑھتی ہوئی قوت کے آگے کوئی ٹھہر نہ سکے گا۔ اسی مقصد کے لئے ساتھ ہی ساتھ بھارت کو ہلا شیری دی گئی۔امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کوئی سازشی نظریہ نہیں بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین رکن ہے۔ یہ صدر نکسن کی خارجہ پالیسی کا بھی حصہ تھا اور آئزن ہاور اور کینیڈی کے خیالات بھی یہی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ خطے میں موجود دوعظیم اقوام یعنی چین اور بھارت کے درمیان توازن پیدا کرنا امریکہ کا فرض ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت کی مدد کی جائے چاہے بھارت اور امریکہ کبھی ایک پیج پہ نہ بھی ہوں۔امریکہ ہمیشہ اسی پیج پہ رہا گو وہ بظاہر پاکستان کا مربی و محسن بنا رہا۔ نائن الیون کے بعد جب دنیا بدل گئی اور افغانستان میں قدم جمانے کے لئے امریکہ کو ہماری ضرورت پڑی تو کیری لوگر بل بھی آیا امداد بھی آئی اور ہم امریکہ کی بلا شرکت غیرے عشق میں ڈومور کی دھن پہ دھمال ڈالتے رہے۔اس دوران صدر اوبامہ پاکستان کے ساتھ مکمل اور اعلان شدہ رشتے میں بندھنے کے باوجود امریکہ کی اسی بھارت نواز پالیسی کو جھاڑ پونچھ کر چمکاتے رہے۔ دسمبر 2014 ء میں اوباما نے آسٹریلیا کے دورے پہ بھارت کے ساتھ غیر مشروط محبت کا اعلان کیا اور کہا کہ ایشیا پیسیفک میں بھارت کے مضبوط تر کردار کے لئے امریکہ ہر وقت مدد کو تیار ہے۔مودی حکومت نے اس لطیف اشارے کو سمجھ لیا اور چین کی خطے میں بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیوں اور بحر ہند کے پانیوں میں اس کی عسکری سرگرمیوں پہ چین کے خوب لتے لئے ۔یہ اسی صدر نکسن کی اسی پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت چین کے خلاف بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کے معاون و مددگار رہیں گے چاہے وہ ایک پیج پہ ہوں یا نہ ہوں۔ایسے میں بھارت روس کے ساتھ بڑے دفاعی معاہدے کرتا ہے تو امریکہ کو اسے برداشت کرنا ہی ہوگا۔ امریکہ کی اس مجبوری سے بھارت بخوبی واقف ہے اور فائدہ اٹھارہا ہے۔روسی صدر پوٹن کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران دونوں ممالک کا ایس 400میزائل کی ڈیل اسی سلسلے کی کڑی ہے حالانکہ یہ صدر ٹرمپ کے منظور شدہ قانون CAATSA کی صریح خلاف ورزی ہے جس کے تحت کوئی ملک امریکی پابندیوں کا شکار ممالک روس، شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ دفاعی معاہدے نہیں کرسکے گا۔اس جارحانہ معاہدے کے بعد تذبذب کا شکار امریکہ نے اگر کچھ کہا ہے تو اتنا کہ اس سلسلے میں اگر بھارت نے اس قانون کے تحت رعایت مانگی تو اس پہ غور کیا جاسکتا ہے یوں بھی یہ قانون امریکہ نے روس کا دماغ ٹھکانے لگانے کے لئے بنایا تھا، اس لئے تو نہیں کہ اتحادی ممالک کا دفاع ہی خطرے میں پڑ جائے۔اس کے ساتھ ہی روس نے بھارت کو تیل اور گیس سے بھرے آرکٹک خطوں میں ناردرن سی روٹ تک رسائی کی دعوت دی ہے جو یورپ کو بحر الکاہل سے جوڑتا ہے اور بھارت کی توانائی کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔یاد رہے کہ اس وقت بھارت ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہے اور امریکہ کے اسی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہنوز ایران کے ساتھ تیل کی تجارت کررہا ہے اور امریکہ تیل کی دھار دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کررہا۔ دیکھا جائے تو بھارت اپنی آزاد خارجہ پالیسی پہ بڑی کامیابی کے ساتھ عمل پیرا ہے اور اسے چین کے خطرے کی وجہ سے خطے میں جو رعایت حاصل ہے اس سے پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔امریکہ کی نصف صدی پہ مشتمل بھارت نواز پالیسی اب اسی کے گلے پڑ رہی ہے۔امریکہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میںمصروف ہے اور بھارت اسی کے نام پہ روس کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے جس کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے۔ چین کو سن ستر کی دہائی میں روس کے خلاف تھپکی دینے والے امریکہ نے اسی کے خلاف بھارت کے سر پہ ہاتھ رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ روس اور چین جو کبھی نظریے کی بنیاد پہ ایک تھے کبھی کے کمیونزم سے تائب ہوئے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا کمیونزم سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا پاکستان کی کسی مذہبی جماعت کا اسلام سے ہوسکتا ہے البتہ اس نے حکومت کی اشتراکی وحدانیت کا موثر استعمال کرتے ہوئے اپنے واحد مقصد کو بخوبی پورا کیا جو صرف اور صرف طاقت کا حصول تھا۔ بھارت جو کبھی سیکولر ہوتا تھا اب ایک سرمایہ دار کی سرپرستی میں مکمل طور پہ سرمایہ دار ملک ہے اور آزاد معیشت کے مزے لوٹ رہا ہے ایسی معیشت کا حسن ہی یہی ہے کہ آپ ایک بلاک میں ہوتے ہوئے بھی دوسرے بلاک کے مزے لے سکتے ہیں۔ ایسے میں ساری دھونس اور دھمکیاں پاکستان کے حصے میں آئی ہیں جو سیٹو اور سینٹو کے عذاب جاریہ سے ہی نہیں نکل سکا۔اس کی جگہ ڈو مور نے لے لی باقی ساری دنیا مزے لوٹ رہی ہے۔ہم چین کیساتھ سی پیک میں شمولیت اختیار کریں تو ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں۔