وقت، مہینے اور سال بدلتے رہتے ہیں۔ انسانی کارنامے، واقعات وحادثات ان کا حصہ بنتے رہتے ہیں، یاد رہتے ہیں۔ تاریخ انہی کارناموں، واقعات اور حادثات سے عبارت ہے۔ ہر نیا دن انسان کے لئے نئے انقلاب لے کر آتا ہے۔ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ ایک ہی سمت میں نہیں گھومتا ۔ زندہ قومیں ہر نئے دن کو خوش آمدید کہتی ہیں اور گزرے دنوں کے واقعات و حادثات سے سبق لیتی ہیں۔ یہ قانون قدرت بھی ہے اور تاریخ کا سبق بھی۔ آج سے ہم پر نیا سال 2020 ء سایہ فگن ہو چکا ہے۔ ہمیں اسے خوش آمدید کہنا ہے، ہلا گلا کرکے نہیں، پٹاخے چھوڑ کر نہیں بلکہ کچھ اہداف، کچھ معیارات مقرر کرنے ہیں۔ جو ہمیں ہر مثبت سوچ ہر مثبت عمل کا عادی بنا دیں۔ امسال کچھ فیصلے بھی کرنا ہوں گے کہ ہم کہاں کہاں کج روی کا شکار ہیں اور کہاں کہاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ہماری صنعت و معیشت،تعلیم و تربیت، تاریخ و ثقافت، میں بہت سے جھول ہیں۔ ہمارے تانے بانے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ہماری معاشرت اور سماج بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ نیا سال ہم سے مثبت تبدیلیوں اور تعمیری انقلاب کا متقاضی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے اندر کو تبدیل کریں کیونکہ باطنی انقلاب خارجی انقلاب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ بحیثیت قوم ہم نے اقوام عالم کے ساتھ بھی کھڑے ہونا ہے ان کے سامنے بھی کھڑا ہونا ہے اور عصری تاریخ کے تمام چیلنجوں کا بحیثیت قوم مقابلہ کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد اپنی مٹی سے اپنی معیشت، صنعت، معاشرت، سماج، تاریخ، ثقافت اور ادب کو بنانے سنوارنے ، نکھارنے کے لئے اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ اگر ہم سننے والے کان رکھتے ہیں تو یہی نئے سال کا پیغام ہے۔