گزشتہ روز دو خوشگوار حیرتوں کا دل خوش کن تجربہ ہوا۔ پہلی حیرت تو یہ کہ جماعت اسلامی کے بارے میں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ زاہدانِ خشک کی جماعت ہے مگر اہل جماعت نے جس عقیدت و محبت کے ساتھ جمعرات کو منصورہ میں ملک بھر سے آئے ہوئے۔ مشائخ عظام کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ ’’زاہدان خشک‘‘ اندر سے بریشم کی طرح نرم ہیں۔ یہ الگ بات کہ رزم حق و باطل میں یہ فولاد دکھائی دیتے ہیں۔اہل منصورہ کی خوئے دلنوازی سے محسوس ہوا کہ وہ صوفیانہ آداب میزبانی کی نزاکتوں اور نفاستوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دوسری خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ خانقاہوں کے سجادہ نشینوں اور مشائخ عظام کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کی دنیا تعویذ دھاگہ کشف کرامت اور مجالس سماع تک محدود ہے۔ مگر منصورہ کی مشائخ کانفرنس نے سراج الحق کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کے لئے دل و جان سے آمادگی کا اظہار کیا۔ پیران کرام نے اپنے خطبات میں سامعین کو تصوف کی اجلی دنیا کی سیر بھی کرائی۔ پیر سید غلام رسول اویسی نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑکی عادات مبارکہ میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ضرور اپنے دسترخوان پر کسی مہمان کو مدعو کرتے اور کبھی اکیلے کھانا تناول نہ فرماتے۔ تاہم ایک بار شہر سے باہر نکل کر تلاش بسیار کے بعد ایک مہمان کو ڈھونڈ کر لائے اور جب آپ نے اس سے کہا کہ بسم اللہ پڑھو تاکہ کھانا شروع کریں تو اس نے کہا کہ کون سا اللہ میں تو کسی اللہ کو جانتا اور مانتا نہیں میں تو مجوسی ہوں۔ آپ کو شدید غصہ آیا اور آپ نے اسے دسترخوان سے اٹھا دیا۔ اس پر ندا آئی کہ ابراہیم میں اس شخص کو اس کے انکار کے باوجود ستر سال سے کھانا کھلا رہا ہوں تم ایک روز نہیں کھلا سکے۔ حضرت ابراہیمؑ بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور بھاگ کر باہر گئے اور ڈھونڈ کر اس مجوسی مہمان کو واپس لائے اور اسے منت سماجت سے کھانا کھلایا مجوسی نے سوال کیا کہ اب کیا ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جس کا نام نہ لینے پر میں نے آپ کو دسترخوان سے اٹھا دیا تھا وہ مجھ سے بہت خفا ہوا۔ حضرت اویسی نے کہا کہ لنگر اور دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ہم کسی کا مذہب و مسلک نہیں پوچھتے۔ تاہم ساتھ ہی ہم رب ذوالجلال کے اس ارشاد کو بھی ہر لحظہ سامنے رکھتے ہیں کہ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے مظلوم بھائی بہنوں کی مدد نہیں کرتے…‘‘لہٰذا ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی ظلم سے رہائی اور ان کی آزادی کے لئے ہر لحظہ مستعد اور کمر بستہ ہیں۔ پیر شہزاد احمد چشتی ‘پیر نوبہار شاہ‘ پیر سید اختر رسول قادری‘ پیر بابر سلطان اور میاں مقصود احمد نے بھی خطاب کیا۔ اکثر سجادہ نشینوں نے تحریک پاکستان اور وطن عزیز میں اسلامی دستور میں علماء کرام اور مشائخ عظام کی خدمات کا ذکر کیا۔ اور کشمیر کے حوالے سے دل چھو لینے والی باتیں کیں۔ ان کی باتوں سے کانفرنس میں شریک سامعین کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ کانفرنس کے میزبان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ تحفظ ختم نبوت‘ نظام مصطفی ؐ اور آزادی کشمیر سیاسی ایجنڈا نہیں قومی و ملی فریضہ ہے اگر یہ سیاست ہے تو ہم سب یہ سیاست کرتے رہیں گے انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں مشائخ عظام کو گواہ بنا کر کہا کہ حکومت آزادی کشمیر کی لڑائی اسلام آباد میں لڑنا چاہتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر یہ لڑائی سری نگر میں نہ لڑی گئی تو دشمن مظفر آباد اور اسلام آباد تک پہنچے گا۔ جماعت اسلامی کے نومنتخب سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے درد مندانہ انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 80لاکھ کشمیری دنیا کی بدترین جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ کشمیر تقریروں سے نہیں عملی اقدامات سے آزاد ہو گا۔ منصورہ کی مشائخ کانفرنس میں مشائخ کے علاوہ ایک ’’مجاہد‘‘ ڈاکٹر خالد محمود بھی کانفرنس میں شریک تھے وہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر ہیں انہوں نے پرجوش طریقے سے پاکستانی حکومت اور فوج سے مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمارا مزید امتحان نہیں لیں۔ ہمیں مقبوضہ کشمیر میں محصور اپنے کشمیری بھائی بہنوں کی مدد کرنے دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے سید علی گیلانی کا تازہ ترین پیغام بھی دیا جس میں انہوںنے پاکستانی حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ مصیبت میں گھری محکوم و مظلوم بستی کے بھائیوں کے لئے آگے بڑھیں۔آپ اس مسئلے کی اہم اور بنیادی فریق ہیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ روح پرور گفتگو سن کر میرے اس تاثر کی تصدیق ہو گی کہ یہی باتیں لاہور کی ایک مجلس میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر اور اپنے انٹرویو میں کشمیری صدر سردار مسعود خان نے کہی ہیں۔ یہی جذبات آزادی کشمیر کی ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے ہیں۔ گویا سارے کشمیری ایک پیج پر ہیں۔ تاہم ان کا گلہ یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ایک پیج پر نہیں۔ میں نے ڈاکٹر خالد محمود سے پوچھا کہ آپ حکومت پاکستان کی مجبوریوں کو کیوں نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پاکستانی حکومت ہمیں اپنی مجبوریاں سمجھائے تو سہی۔ حکومت پاکستان آزاد کشمیر حکومت کو آل جموں و کشمیر حکومت ڈیکلیر کرے اور ہمیں اپنے وطن کی مکمل آزادی کے لئے جدوجہد کرنے دے۔ میں نے کشمیری لیڈر سے کہا کہ جناب ! آپ کو اجازت دینا کوئی ’’عقل مندی‘‘ کا کام تو شاید نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی آزادی کی تحریکوں کا احوال پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جب تک یہ تحریکیں کچھ ’’دیوانگی‘‘ کے کام نہیں کرتیں اس وقت تک انہیں آزادی نہیں ملتی اور یوں بھی حکومت پاکستان نے عالمی و سفارتی سطح پر سوائے یو این او کی ایک تقریر کے کیا کیا ہے۔ عام سے معاملات و موضوعات پر او آئی سی کی کانفرنسیں ہوتی رہی ہیں مگر یہاں تو یہ حکومت اسلام آبادمیں اسلامی سربراہی کانفرنس نہیں کروا سکی۔ ویسے حقیقت بھی یہی ہے جس کی طرف ڈاکٹر صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ آج ضمیر عالم بے حسی کی انتہا پر ہے اور ضمیر اسلامی بے عملی اور عدم دلچسپی کی پستیوں کو چھو رہا ہے۔ پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل تو رہا ایک طرف اتنا بھی نہیں کر سکا کہ 75روز سے وادی کشمیر میں جاری دنیا کے بدترین کرفیو کو ختم کرا سکیں۔ سینیٹر سراج الحق نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ کشمیر اب حکومت اور اپوزیشن کا ایجنڈا نہیں رہا۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ کسی سیاسی جماعت نے کشمیر کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھا۔سراج الحق صاحب نے درست کہا مگر انہوں نے ماضی کی روایات کے مطابق کشمیر کے مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ساری سیاسی جماعتوں کو یہ باور نہیں کرایا کہ جماعت اسلامی جو فرض ادا کر رہی ہے یہ فرض کفایہ نہیں فرض عین ہے۔ یہ مظلوم بھائیوں کی مدد کا مسئلہ ہے یہ پاکستان کی شہ رگ کا مسئلہ ہے اور یہ خود پاکستان کی بقا اور سلامتی کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی باعث حیرت ہے کہ جماعت اسلامی نے دینی سیاسی جماعتوں کو بھیاس فرض کی طرف نہیں پکارا اور صرف مشائخ کانفرنس تک اکتفا کیا ہے۔ جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھنے والے لاکھوں باشعور پاکستانی و کشمیری جو ملک میں ہیں یا ملک سے باہر وہ بار بار جماعت کو متوجہ کر رہے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر حکومتی پارٹی سمیت آل پارٹیز کانفرنس بلائے اور وہ کام کہ جو حکومت کو کرنا چاہیے تھا جس سے وہ پہلو تہی کر رہی اس کی طرف ساری جماعتوں کو متوجہ کرے۔ بلا شبہ سینیٹر سراج الحق کی میزبان میں مشائخ کانفرنس بہت کامیاب رہی مگر اس سے بڑی ضرورت آل پارٹیز کشمیر کانفرنس کی ہے۔ امید ہے جناب سراج الحق بلا تاخیر یہ ملّی قومی فریضہ انجام دیں گے جسے دیر آید درست آید ہی کہا جائے گا۔