وکلا کے پی آئی سی پر حملے کے حوالے سے شدید مذمت ہوچکی ، یہ سلسلہ جاری ہے۔ وکلا کو ملک کے کسی بھی طبقہ سے حمایت حاصل نہیں ہو رہی۔ یہ بات وکلا رہنمائوں کو ہضم نہیں ہو رہی ۔ انہیں شائد یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہیں۔ جہاں انہوں نے قدم جما رکھے ہیں، وہ زمین دلدلی ہے۔ جتنا زور لگائیں گے اتنا وہ اس میں مزید دھنسیں گے۔بہترین طریقہ یہی تھا کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے اورگناہ کی دلدلی زمین سے ہٹ کر اصلاح کی پکی شاہراہ پر چل نکلتے ۔ تب جو گنوایا، وہ بھی واپس ہونے کی امید بنتی اور عوام الناس کی نظروں میں ان کا امیج بھی درست ہو جاتا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں نے پوری وکلا برادری ہی کو ہدف بنا لیا ہے۔ ضرورت سے زیادہ اور شدت کی حد تک چھوتا ہوا ردعمل۔ صرف لاہور میں آٹھ دس ہزار کے قریب وکیل موجود ہیں، پنجاب میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ سے کم نہیں ہوں گے۔ پی آئی سی پر حملہ کرنے والے پانچ چھ سو سے زائد نہیں۔ ان چند سو کے غلط کام کی سزا پوری وکلا برادری کو کیسے دی جا سکتی ہے؟سوشل میڈیا پر خاص طور سے وکیلوں کے خلاف جو نفرت انگیز مہم شروع ہوئی ،وہ افسوسناک ہے۔وکیلوں اور کالے کوٹ کو نفرت، تضحیک کی علامت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ انصاف نہیں۔ ہر شعبے کی طرح وکیلوں میں بھی اچھے، برے سب قسم کے لوگ موجود ہیں۔بہت اچھے وکیلوں کی بھی کمی نہیں۔ خداترس، غریب موکلوںکے ساتھ نرمی، شفقت سے پیش آنے والے موجود ہیں۔ ایسے بھی بہت سے ہیں جو نادار سائلوں کے کیسز مفت لڑنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ میں وکلا برادری ہمیشہ آمریت کے خلاف پیش پیش رہی ہے۔ہر عوامی احتجاجی تحریک میں انہوں نے بھرپور حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر برادری ، انجینئر یا دیگر پروفیشنل طبقات کے لوگ سیاسی عمل سے اکثر بے نیاز رہتے ہیں، عوامی تحریکوں میں بھی ضروری نہیں کہ وہ حصہ ڈالیں۔ وکیل البتہ ہر ایسے موقعہ پر نمایاں نظر آئے۔ انفرادی طور پر بھی بہت عمدہ کیریکٹر کے وکیل ہر ایک کے مشاہدے اور تجربے میں رہے ہوں گے۔ میں نے اپنی زندگی کے جو چند بہترین لوگ دیکھے ،ان میں سے نصف سے زیادہ وکیل ہیں۔بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔منفی تجربات بھی ہوں گے، مگر اچھے تجربات، مشاہدات کی کمی نہیں۔ مجھے حال ہی میں ایک بہت اچھے وکیل اور نہایت شریف النفس شخص سے واسطہ پڑا۔ایک نجی معاملے میں کیس کی پیروی کے لئے بہاولپور میں محمود بھٹی ایڈووکیٹ کو ہائر کیا۔ انہوں نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ کیس لڑا اور بہت سے لوگوں کے لئے شائد یہ حیرت کی بات ہوگی، مگر ان کی نصف فیس میں نے کیس کے فیصلے کے بعد دی۔ عام طور پر یہ تاثر ہے کہ وکیل موکل کی کھال اتارتے ہیں اور مکمل فیس وصول کئے بغیر کبھی کیس کی فائنل بحث نہیں کرتے کہ کہیں موکل پیسے دینے سے انکاری نہ ہوجائے۔ میرے ساتھ تو اس کے برعکس ہوا۔ میرے دل میں بہاولپور کے وکیلوں کے لئے بہت اچھا تاثر قائم ہوا۔ یقینی طور پر لاہور اور دیگر شہروں میںبھی ایسے وکلا کی کمی نہیں۔اس لئے پی آئی سی پر حملہ کرنے والے وکیلوں کی مذمت کرتے ہوئے پوری وکلا برادری کو ہدف نہیں بنانا چاہیے۔ یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ آدمی کو غصے اور ہیجان میں بھی توازن برقرار رکھنا چاہیے۔ مجھے اس کا اعتراف ہے کہ عوامی غم وغصے کی بڑی وجہ وکلا تنظیموں کامنفی رویہ بنا۔ بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز نے حیران کن طور پر اس واقعے کی مذمت کرنے اور ذمہ دار وکلا سے فاصلہ کرنے کے بجائے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنایا۔ دسمبر ، جنوری میں کونسلز، ایسوسی ایشنز کے انتخابات ہوتے ہیں، شائد یہ جارحانہ رویہ اسی لئے اپنایا گیا۔ ایسا کرنا غلط تھا۔ اس بات کا امکان ہے کہ ابتدا میں پی آئی سی کے ڈاکٹروں سے بھی زیادتی ہوئی ۔وکیلوں کی غلطی یہ ہے کہ ان کا ردعمل غیر متناسب اور انتہائی شدید رہا۔ ظلم کی ایک تعریف توازن کھو بیٹھنابھی ہے۔ ڈاکٹروں کی اپنی ویڈیو سے اس کی تصدیق ہوئی کہ انہوں نے وکیلوںکو پیٹا اور بری طرح پیٹا اور پھر عدم شواہد کی بنا پر ان کے خلاف کارروائی بھی نہ ہوسکی۔ یہ باتیں خود اس وائرل ہوجانے والی ویڈیوز میں ڈاکٹر نے کہیں اور ان کی تائید دیگر میڈیکل سٹاف کر رہا تھا۔ وکلا کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے تھا، مگر ایسا کرتے ہوئے وہ ہسپتال ہی پر حملہ آور ہوگئے ۔ یہ صریحاً ظلم تھا۔ ویسے احتجاج کرتے ہوئے بھی جتھے کا سا تاثر نہیں دینا چاہیے تھا۔ رہی سہی کسر احمقانہ انداز کے بڑبولے پن والی ویڈیوز نے پوری کر دی۔ پی آئی سی میں جو ہوا، اس کے بعد توذمہ دار وکیلوں سے ہمدردی اور ان کی سپورٹ کا کوئی جواز نہیں رہا۔ ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی بنتی تھی۔ وکلا تنظیموں کو وقت کی نزاکت اور اپنے ساتھیوں کی بھیانک غلطی کا احساس کرنا چاہیے تھا۔ بارکونسلیں ایسا کرنے میں ناکام رہیں اور سچ یہ ہے کہ پوری وکیل برادری کا امیج بری طرح مسخ کر دیا۔ ایک بہت اچھا قدم چند دنوں کی تاخیر سے سہی، مگر پچپن سینئر وکیلوں نے اٹھایا ہے۔ روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کی خبر کے مطابق پچپن سینئر وکیل جن میںعابد حسن منٹو، رضاکاظم، سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان، سلمان اکرم راجہ، بابر ستار اور دیگر شامل ہیں، انہوں نے پاکستان بارکونسل کے نام اپنے خط میں پی آئی سی پر حملہ آور وکیلوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ سینئر وکلا نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے لکھا ،’’ پبلک پراپرٹی اور ہسپتال پر حملے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، قانون پر عمل درآمد وکلا کی بنیادی ذمہ داری ہے۔، اس واقعے نے وکالت کے پیشے کو بدنام کیا،بارکونسل اور ایسوسی ایشن کی ہڑتال بھی افسوسناک ہے، احتجاج کے حق کا مطلب عدالتی امور کا بائیکاٹ نہیں۔افسوس کہ پاکستان بار کونسلز اور ایسوسی ایشن نے واقعے کی مذمت نہیں کی۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود اپنا محاسبہ کریں۔وکلا کی ساکھ اور عظمت بحال کرنے کے لئے پاکستان بارکونسل اور ایسوسی ایشن اقدامات کریں۔ معذرت خواہانہ رویے کے بجائے سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔‘‘ ان سینئر وکلا کے خط سے ذاتی طور پر خوشی ہوئی ہے۔ انہوں نے وہ قرض اتارا جو ان سب پر واجب تھا۔ یہ مذمت اور خط چند دن کی تاخیر سے آیا، مگر بہرحال اس نے شکوہ دور کر دیا۔ حامد خان، علی احمد کرد، لطیف کھوسہ، رضا ربانی اور دیگر سینئر وکلا صاحبان کو اپنے رویے پر خود غور کرنا چاہیے۔ اعتزاز احسن البتہ تاریخ کی عدالت میں اسی روز سرخرو ہوگئے تھے۔ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلہ آناپاکستانی تاریخ کا ایک غیر معمولی اہم واقعہ ہے۔ بعض فیصلوں پر عملدرآمد اگر نہ بھی ہوسکے، تب بھی ان کی علامتی اور نفسیاتی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، یہ فیصلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔اس کے قانونی پہلوئوں پر ماہرین قانون ہی بات کر سکتے ہیں۔پرویز مشرف نے آج سے بارہ سال قبل صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ایمرجنسی پلس لگانے کا غلط، ناجائز اور ناروا فیصلہ کیا تھا۔ہم سب نے اپنے اپنے انداز میں اس پر تنقید کی تھی۔ ایمرجنسی کے دنوں میں اس طرح کھل کر لکھنا ممکن نہیں تھا تو میرے جیسے لوگوں نے علامتی انداز میں لکھا ۔اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ تاریخ میں اس سے ملتے جلتے واقعات کو بیان کر کے کوئی نتیجہ اخذ کئے بغیر ہی قاری پر چھوڑدیا جائے۔ پڑھنے والے اندازہ لگا لیتے تھے کہ آج امریکی یا برطانوی عدالتی تاریخ کا یہ واقعہ کیوں دیا جا رہا ہے۔ ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد نسبتاً زیادہ کھل کر لکھا جاتا رہا۔پرویز مشرف اپنی ایمرجنسی کو وہ اس لئے طویل نہ کر سکے کہ ان کے پاس زیادہ وقت بچا ہی نہیں تھا۔مشرف کو جانا ہی تھا۔ وقت کا فیصلہ ان کے خلاف ہو چکا تھا۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ بھی انہیں حاصل نہیں رہی تھی۔انہوں نے ایمرجنسی پلس لگائی، عدلیہ پر کلہاڑا چلایا،پھر پی سی اوجج لے آئے ۔ وہ سب کچھ واپس ہوا۔ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ کم وبیش یہی آنا تھا۔ اگر انہیں سن لیا جاتا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو خصوصی عدالت اہمیت دیتی اور مشرف کا موقف لے لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔اسی طرح پرویز مشرف کے اس وقت کے ساتھیوں، وزیراعظم، کابینہ کو بھی حصہ داربنانا چاہیے۔ وہ بھی جرم میں برابر کے شریک تھے۔نواز شریف حکومت نے ایسا دانستہ نہیں کیا تھا کہ مشرف کے کئی ساتھی ان کی حکومت کا حصہ تھے،مشرف کے کچھ ساتھی وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں بھی ہیں۔ ان سب لوگوں کو مشرف کے ساتھ ملزم ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال یہ فیصلہ اب آ چکا، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ اس کو سراہنے والے بھی ہیں تو ردعمل بھی عام معمول سے ہٹ کر زیادہ شدید اور بڑی سطح کا آیا ہے۔ ویسے اس پر اپیل لازمی ہوگی اور سپریم کورٹ ہی معاملے کو حتمی انداز میں طے کرے گی ۔