وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نفرت انگیز تقاریراور اسلامو فوبیا کے خلاف موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے بڑی جرأت کے ساتھ اقوام متحدہ کو آئینہ دکھاتے ہوئے نفرتوں کے سوداگروں کو باورکرایا ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے ،جس کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں رسول اللہ ؐ کا اسلامی انقلاب اس لحاظ سے بھی بے مثل ہے کہ اس عالمگیر انقلاب کی ابتدا کے وقت بھی خون کا ایک قطرہ نہیں بہا۔ بلکہ رسول اللہ ؐ نے حجتہ الوداع کے موقع پر واضح کیا کہ اسلام میں سب برابر ہیں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے پر اورکسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، اسلام میں اچھائی کا معیار تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔ اسلام ایک پرامن مذہب ہے جو اقلیتوں کو ان کے حقوق دیتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جنگ کے دوران بھی بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ لیکن آج کے دور میں ہر برائی کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر اسے بدنام کرنے کا رواج بن چکا ہے۔ دہشت گردی اور خودکش حملوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اہل اسلام نے ہر دور میں اس کی مذمت کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کی صحیح معنوں میں وضاحت کی ہے کہ اگر ناانصافیوں پر قابو نہ پایا گیا تو پھر اس کے ردعمل میں دہشت گردی کو تقویت ملے گی۔ پاکستان ایک عرصے سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کی دہائی دے رہا ہے، لیکن اقوام عالم نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ اب اگر کشمیری نوجوان اپنے حقوق کے لئے اسلحہ اٹھائیں یا ظالم بھارتی افواج سے بچائو کے لئے کوئی حفاظتی اقدام کریں تو اُسے دہشت گردی سے جوڑنا ناانصافی ہو گی۔ فلسطین‘ بوسنیا ‘افغانستان ، عراق اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ نائن الیون سے قبل آئے روز تامل ہندو ٹائیگر خودکش حملے کرتے تھے لیکن کسی بھی ملک نے انہیں انتہا پسند قرار نہیں دیا۔ دوسری جنگ عظیم میںجاپانیوں نے امریکہ کے جہازوں پر خودکش حملے کئے ،انہیں کسی نے بھی مذہب سے نہیں جوڑا۔ امریکہ میں آئے روز جنونی عیسائی اور یہودی مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں لیکن ان حملوں کو آج تک کسی نے بھی مذہب سے نہیں جوڑا۔ نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملوں کے وقت بھی مسلمانوں نے صبر و تحمل کا دامن تھامے رکھا اور کسی کے مذہب کو تنقیدکا نشانہ نہیں بنایا۔ دراصل جنونی عیسائی‘ یہودی ‘ہندو اور دیگر تمام مذاہب میں پاتے جاتے ہیں، ان کے سدباب کے لئے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہولو کاسٹ کے معاملے پر یہودی سیخ پا ہو جاتے ہیں جس طرح تمام مغربی ممالک ہولو کاسٹ کے معاملے پر محتاط ہیں، اسی طرح انہیں اسلام کے بارے میں بھی حساسیت کے پہلوئوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ لیکن مغربی دنیاایسے جنونیوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے ،جس کے بعد وہ کھل کر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ مغربی ممالک اگر ٹھنڈے دل سے اس بات کا جائزہ لیں تو ان پر کئی در وا ہونگے ،اس وقت دنیا بھر میں اسلامی ممالک پر ہی آتش آہن کی بارش کیوں جاری ہے ،کشمیر سے لے کر فلسطین تک اور افغانستان سے عراق تک ہر جگہ پر مسلمان ہی زیر عتاب کیوں ہیں؟ دنیا بھر میں دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، منصفانہ طور پر ان کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ آنکھیں بند کر کے مسلمانوں پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ بھارت میں کئی مسلمان خاندانوں کو صرف اس بنا پر تشدد کر کے قتل کیا گیا کہ ان پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام تھا۔ اب اگر ہندوستان میںمسلمان اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر اسلام کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن مسائل کی اصل جڑ اور فتنے کی تہہ تک جانے کی زحمت نہیں کی جائے گی۔ عالمی طاقتیں اپنے اپنے ملک میںمقیم مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور انہیں دیوار کے ساتھ لگانے کی بجائے سینے سے لگائیں ، ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی پر عمل کریں تو ساری سازشیں خود بخود دم توڑ جائیں گی۔ وزیر اعظم عمران خان آج جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں توہین رسالت کے معاملے پر بھی بات کریں گے۔ رسول اللہؐ کی توہین کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ مسلمان حضور نبی کریم ؐ سے اپنے جان مال اولاد اور عزت و آبرو سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔کیونکہ اس کے بغیر مسلمان کا ایمان ہی مکمل نہیں ہو سکتا۔ مغرب کے کج فہم کچھ عرصے کے بعد رسول اللہ ؐ کی شانِ اقدس میں گستاخی کر کے مسلمانوں کے جذبات ابھارتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے مسلمان اس معاملے پر بہت زیادہ جذباتی ہیں۔ اقوام متحدہ کو اس بارے کوئی قانونی سازی کرنی چاہیے۔ گزشتہ روز وزیرا عظم عمران خان نے ترکی اور ملائشین ہم منصب کے ساتھ مل کر اسلام کی درست تشریح کے لئے انگلش چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو خوش آئند ہے کیونکہ اس وقت دنیا کے سامنے اسلام کی درست تصویر پیش نہیں کی جا رہی، جس کے باعث مغربی ممالک ہر برائی کو اسلام کے ساتھ جوڑتے نظر آتے ہیں ۔ جو سراسر ناانصافی ہے۔ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور تمام اقوام کو امن و سلامتی اور سکون کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے اگر کسی جگہ پر کوئی کمی بیشی ہو تو اُسے باہمی افہام وتفہیم سے حل کیا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک نفرتوں کے سوداگر بننے کی بجائے پیار ‘ محبت اور الفت کا پرچار کریںاور مسلمانوں کے ساتھ ملکر نفرت انگیز بیانیے کے خاتمے کی کوشش کریں ۔