ستر کی دہائی کے آخری سالوں سے ہم نفرت کی ایسی فصل بوتے چلے آ رہے ہیں جس نے ہماری نسلوں کو مکمل لپیٹ میں لے لیا ہے اور اسکی وجہ سے ہم معاشی میدان سے لیکر انسانی ترقی کی دوڑ میں قرون وسطیٰ کے دور میں جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ نفرت ہم نے سیکھی نہیں بلکہ کبھی بین الاقوامی طاقتوں کی ضرورت اور کبھی برادر اسلامی ممالک کی باہمی کدورتوں کی وجہ سے ہمیں عطا ہوئی ہے۔ہم نے بھی کبھی اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ہم نفرت کی ایک ایسی آگ میں گھر چکے ہیں جو ہمیں بھسم کئے جا رہی ہے۔ اسے بجھانے کی بجائے ہم بڑے شوق سے اس میں انسانی ایندھن ڈال کر اسے مزید بھڑکا رہے ہیں۔اس کے لئے ہم آئے روز کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔کبھی افغان بھائیوں کی مدد کرتے ہیں کہ کہیں روس اپنے غاصبانہ قبضے کو پاکستان تک نہ پھیلا دے کہ اسے گرم پانیوں تک رسائی درکار ہے۔کبھی ہم سات سمندر پار حملے کا ذمہ دار انہی بھائیوں کو ٹھہرا کر وہاں پر ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے پھیلنے سے روکنے کے لئے ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ان سارے معاملات میںہم نے دلیل کے لئے مذہبی رشتوں کو بنیاد بنایاجس کا نتیجہ مذہب کی ایسی تشریحات کی صورت میں نکلا کہ اب ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی آگ بھڑکانے یا تشدد پھیلانے کی دلیل موجود ہے۔اور یہ سب کچھ کرنے والے جس میں ہمارے علماء اورریاست بھی شامل ہے ان منہ زور لوگوں کے سامنے اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ انکا سامنا کرنے کی بجائے اپنے ایمان کے پختہ ہونے کی دلیلیں دیتے نہیں تھکتے۔سیاسی ضروریات اس قدر حاوی ہیں کہ ایک وقت میں اس نفرت کو فروغ دینے والوں سے محبت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے تو دوسرے کسی موقعہ پر اسکو معاشرے میں فتنہ اور فساد پھیلانے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔جو بات بحیثیت معاشرہ ہمارے سمجھنے کی ہے کہ نفرت ایک ایسی دیمک ہے جو ملکوں، قوموں اور نسلوں کو کھا جاتی ہے۔ نفرت کے شکار لوگ پوری زندگی اس سے نہیں نکل پاتے جب تک وہ خود اس بات کا ادراک نہ کر لیں۔ حالیہ واقعات جس سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں ہوئے اسکے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں رائے دینا اہل علم و حکمت کا کام ہے لیکن جس قسم کا پر تشدداحتجاج اس فیصلے کے خلاف کیا گیا اسکی توجیہہ عشق رسول ﷺ سے لیناکسی طور مناسب نہیں ہے۔عشق رسولﷺ کے داعیوں میں داتا گنج بخش ہجویریؒ ،بابا فرید شکر گنج ؒ، معین الدین چشتی ؒ، پیر مہر علی شاہ ؒ، سلطان باہو ؒ، شاہ لطیف بھٹائی ؒ، مصطفے ٰ ؐ جان رحمت کے خالق سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ اور دیگراولیاء کرام اور مشائخ عظام ہیں ۔ جنہوں نے اس دھرتی کو اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔ یہاں محبت کا ایک ایسا زمزمہ جاری کیا جو رہتی دنیا تک اللہ کے پیارے پیغمبر رحمت اللعالمینﷺ کی محبت اور پیغام کو رواں رکھے گا۔ہمیں اسکو آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں نفرت کی آگ میں بھسم نہیں ہونا کیونکہ ہمارا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ہم کبھی نفرت کے پروردہ نہیں رہے: محبتوں کے تسلسل کو جس نے ختم کیا وہ نفرتوں کے اصولوں سے آشنا ہی نہیں بجھائے جس نے دیئے روشنی کی راہوں کے وہ میرے شہر مرے دیس کی ہوا ہی نہیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کی بنیاد رکھنے والے ہمارے سیاسی قائدین ہیں جنہوں نے قانونی جنگ پر سیاسی نفع کو ترجیح دی۔کبھی ججوں کے فیصلوں کو چمک کہنا اور جب ملک کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر ججوں پر رقیق حملے شروع کر دے تو کسی چھوٹی جماعت کے لئے یہ مشعل راہ ہے۔جو کچھ گزشتہ چند دنوں میں ہوا یا پچھلے سال ہوتا رہا اس سے نہ تو احتجاج کرنے والوں نے اسلام کا کوئی بھلا کیا اور نہ ہی ملک کیلئے کوئی بہتری کی صورت نکلی۔بلکہ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں ہمارے لئے مزید مشکلات کا باعث بنی۔ایک بنیادی بات جو موجودہ حالات میں سمجھنے کی ہے کہ نو گیارہ کے واقعے کے بعد امریکہ نے جس قسم کا پراپیگنڈہ انتہا پسند اسلام کے حوالے سے کیا ہے اس سے دنیا کے تقریباً تمام غیر مسلم ممالک نے بہت اثر لیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اسلام فوبیا کا شکارہیں بھلے روس امریکہ اور چین کے درمیان لاکھ اختلافات ہوں یا یورپی ممالک کے درمیان تجارتی مسائل ہوں لیکن اس معاملے پر وہ سب ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔ اور شدت پسند اسلام کو دنیا میں امن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔اسی تاثر کی آڑ میں وہ کبھی پاکستان کو ڈو مور کا حکم دیتے ہیں کبھی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ اب ایف اے ٹی ایف کے ذریعے ہمیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ جیسے معاملات میں پھنسانے کی کوشش جاری ہے۔ اسی طرح سے دوسرے اسلامی ممالک کو امریکہ آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔ سعودی عرب بھی مشکل میں ہے جبکہ ایران کے خلاف ایک بار پھر امریکہ نے پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے میں مزید شرارتیں کرنے کے موڈ میں ہے۔ ترکی کے ساتھ بھی امریکی مخاصمت جاری ہے۔اس صورتحال میں ہمیں جانے انجانے میں اسکی مکروہ سازش کا حصہ نہیں بننا ہے۔پاکستان علاقائی تعاون کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس میں سب سے اہم چین اور سعودی عرب ہیں۔ اسکے بعد روس، ایران، افغانستان اور ترکی ہیں۔ہم اپنے خطے میں جتنا مضبوط اتحاد بنانے میں کامیاب ہوں گے اتنا ہی امریکہ کے اثر و نفوذ سے آزاد ہونگے۔اسکے لئے پاکستان کے اندر ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہے جو ہمارے علاقائی دوستوں کو خوش آمدید کہے۔یہ ممالک اگرسی پیک میں بھی شامل ہو جاتے ہیں تو ایک بہت مضبوط علاقائی اتحاد وجود میں آ جائے گا۔ اسکی وجہ سے بھارت کے رویے میں بھی تبدیلی کے امکانات روشن ہو جائیں گے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ بھی اس علاقائی اتحاد کا ایک اہم اور مخلص جزو بننے پر تیار ہو جائے۔