کہتے ہیں کہ نقل کے لئے عقل چاہیے مگر جس طرح کی نقل ان دنوں چل رہی ہے خاص طور پر سندھ میں تو کہنا پڑے گا کہ عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔ اتفاق سے میں کامران خاں کا پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں وہ سندھ کے وزیر تعلیم سے گفتگو فرما رہے تھے اور موضوع تھا سندھ میں ’’نقل عام‘‘ ۔کامران چیخ چیخ کر وزیر موصوف سے پوچھ رہے تھے کہ صوبہ سندھ میں نقل کا رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور طلباء بڑی دیدہ دلیری سے سرعام نقل لگاتے ہیں ایک ویڈیو میں یہ منظر دیکھا تو واقعتاً عقل گم ہو گئی کہ یہ ہو کیا رہا ہے بچے اپنے موبائل کے واٹس اپ آنے والے سوالات کے جوابات کی تازہ رسد سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ نگران کہاں تھے؟ ویڈیو میں تو نہیں تھے لگتا تھا کہ شاید یہ کسی نے ایک ویڈیو بنائی ہے وگرنہ امتحان ایسے تھوڑا ہوتے ہیں۔ کامران خاں کے چیخنے چلانے اور احتجاج کرنے پر وزیر صاحب بہت مزے سے مسکراتے چلے جا رہے تھے اور انہوں نے ہنسنا شروع کر دیا جس پر خاں صاحب کو غصہ آ گیا اور کہنے لگے جناب اب یہ منظر دیکھ کر اور میرے احتجاج پر ہنس رہے ہیں یہ تو سراسر رونے کا مقام ہے۔ میری ہنسی نکل گئی اور مجھے سیف صاحب کا شعر یاد آ گیا: مجھ کو تو گردش حالات پہ رونا آیا رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا ایک شعر مگر ہنسی کے حوالے سے غالب کا مجھے چھیڑنے لگا: پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی مگر یہ ہنسی کا گم ہو جانا تو حساس ہونے کا نتیجہ ہے۔ تفکر کی نشانی ہے اور سنجیدہ سوچ کی غماضی ہے مگر جہاں اقدار کا بیڑہ غرق ہو گیا ہواور پوری نسل ہی ۔۔۔۔۔کا شکار ہو وہاں نظام کا بھٹہ تو بیٹھے گا وزیر تعلیم جلی کٹی سن کر ذرا سنجیدہ ہوئے تو کہنے لگے سائیں یہ کلچر ہے ۔اب کس کس کو روکا جا سکتا ہے۔وہ دوبارہ مسکراتے ہوئے کامران خاں کی اذیت سے لطف اٹھانے لگے۔ اگر ان کی جگہ اسلم رئیسانی ہوتے تو کہتے یار امتحان امتحان ہو تا ہے خواہ زبانی دو یا نقل لگا کر دو۔ ویسے نقل لگا کر لکھنا زیادہ مشکل ہے۔ اکثر نقل لگانے والے وہی ہوتے ہیں جو جواب کے ساتھ ہاتھ کی تصویریں بنا دیتے ہیں وہاں زیادہ لطف آتا ہے جہاں ایگزامینر بھی بچوں کو صحیح جوابات نہیں بتا سکتے ‘وہی کہ سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے۔ ایک لڑکے نے نگران سے ’’نشیب و فراز‘‘ کے معنی پوچھ لئے اس نے ایگزامینر سے پوچھے کسی کو معنی نہیں آتے تھے تاہم ایگزامینر نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ اسے ’’اوچا جھکا‘‘ دوسرا کہنے لگا نہیں نہیں۔ وہ تو ’’مدوجزر‘‘ ہوتا ہے۔ میرے معزز قارئین جہاں نقل لگانا فن ہے وہاں نقل لگوانا اس سے بھی بڑا کام ہے۔ مجھے اپنی یادداشت آپ کے ساتھ شیئر کرنا پڑے گی اور یہ ایسی یادداشت ہے کہ آپ اپنے دانتوں میں انگلیاں دے لیں گے کہ ہمارے پاس کیسے کیسے سپوت ہیں اور کس قدر وہ ذہانت و فطانت رکھتے ہیں۔ ہمارا ایک دوست عباس عرف باچھو نقل لگوانے میں بہت شہرت رکھتا تھا۔ ممتحن اس سے بڑے زچ تھے۔ پولیس بھی تنگ تھی۔ بات ڈی سی تک پہنچی تو اس نے ضلع کی پولیس کو کہا کہ ایک شخص اس کے قابو میں نہیں آیا؟ ڈی سی کے غصے کو دیکھ کر پولیس نے ایک چانس مانگ لیا۔ گویا پولیس نے خود کو امتحان میں ڈال لیا۔ اس روز اسلامیات کا پرچہ تھا ساری پولیس نے امتحانی ہال کو گھیرے میں لے رکھا تھا کہ اگر کوئی قریب آئے تو اسے گرفتار کر لے۔ خاص طور پر ان کی نظریں عباس عرف باچھو کی منتظر تھیں کہ وہ پولیس کی سبکی کا باعث بنا تھا۔ ایک گھنٹہ گزرا کہ اچانک سامنے والی اونچی عمارت سے آواز آئی’’لکھو اوئے: عباس نے سورۃ کا ترجمہ بلند آواز میں لکھوایا۔ پولیس کی دوڑیں لگ گئیں مگر عباس گرفتارنہ ہوا۔ اس کی ایک ادا پر تو ہم بھی فدا ہو گئے تھے کہ ایک مرتبہ وہ کھڑکی کے ساتھ کھڑے اندر بیٹھے ہوئے اپنے دوست کو انگریزی کا مضمون نقل کروا رہا تھا۔ ایک جگہ اس نے کہا ’’قومہ‘‘ یعنی آگے قومہ لگا لو۔ اندر سے آواز آئی’’قومے کے سپیلنگ کیا ہیں؟ اتنا پوچھنا تھا کہ عباس عرف باچھو کو غصہ آ گیا آخر نقل لگوانے کا ہمارا بھی کوئی معیار ہے۔ چلیے معیار کی بات آئی تو آپ کو پیارا سا شعر پڑھا دیتے ہیں: لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے بہرحال اس ناہنجار کو عباس کے معیار پر آنا چاہیے تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باقاعدہ سنٹر بکتے ہیں۔ بعض جگہ تو ممتحن ایسے دلیر ہیں کہ بچہ پیسے پکڑتے ہیں اور یقینا اس عمل میں سارا عملہ شامل ہوتا ہے کتنے شرم کی بات ہے کہ یہ کام کرنے والے اکثر شعبہ تدریس سے ہوتے ہیں۔ ابھی تک میرے دل پر ایک واقعہ زخم کی طرح ہے کہ ایک استاد کو ایک مرتبہ اس کے عملے کے ساتھ چھاپہ مارنے والی ٹیم نے باقاعدہ مرغا بنایا یہ تصویر اکثر دوستوں کے ذہن میں ہو گی۔ اس سے زیادہ استاد کی تذلیل کیا ہو سکتی ہے اور اس ذلت کا باعث بھی استاد خود بنا۔ میں تو اب تک سوچتا ہوں کہ ایسا شخص ساری عمر خود کو کیسے فیس کرے گا۔ ہائے ہائے: ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا اب تو نقل کے جدید انداز نکل آئے ہیں۔ موبائل آپ کے پاس ہے تو سب کچھ آپ کے پاس ہے مجھے اچانک اپنے سکول کے استاد غلام رسول مہاروی یاد آ گئے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا کرے کہ چشتیاں کی جامع مسجد بنوانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ ہمارے پرچوں میں نگرانی کیا کرتے تھے اخبار پڑھتے رہتے پھر اچانک نقل لگانے والوں کو پکڑ لیتے لڑکے حیران کہ ان کے پاس کوئی علم ہے یہ تو غور کرنے اور تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ اخبار نہیں پڑھتے تھے اس میں سورخ کر کے نقل لگانے والوں کو ٹارگٹ کرتے تھے۔ جو بھی ہے نقل لگانے والے بھی بڑے فنکار ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے امتحان بھی ہوتے ہیں جہاں خود استاد نقل لگا رہے ہوتے ہیں۔ اصل میں ہمارے امتحانات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں کہ جہاں تخلیقی تربیت نہیں کی جاتی بلکہ رٹا لگوایا جاتا ہے ویسے تو نقل لگا کر اور امتحان پاس کر کے بھی یہاں کیا ملتا ہے۔ نوکریاں تو ہیں نہیں جن کو نوکریاں ملتی ہیں ان کے لئے تعلیم کیا چیز ہے۔ آدھی اسمبلی جعلی ڈگری والوں کی تھی ایسے میں تعلیم کیا اور امتحان کیا۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اس نے بدل کے رکھ دیے میرے حواس بھی جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہے پاس بھی