اس واقعے کی تفصیل ہمیں ہمارے ایک پرانے دوست چودھری شریف نے سنائی ہے جو سیالکوٹ پسرور روڈ پر واقع قصبہ بڈیانہ میں رہتے ہیں۔ بڈیانہ سے ہمیں جذباتی وابستگی بھی ہے کہ ہم نے یہاں کے لوئر مڈل سکول سے چوتھی جماعت کا امتحان پاس کیا تھا۔ چودھری شریف آج کل لاہور آئے ہوئے ہیں۔ ان کی زبانی جو ہمیں پتہ چلا آپ کی خدمت میں عرض کیے دیتے ہیں۔ تھانہ بڈیانہ کے دو اہلکاروںنے کرپشن کے سلسلے میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔ بقول چودھری شریف انہیں کرپشن کرنے میں یدِطولیٰ حاصل ہے۔ یوں تو تھانے کے دوسرے اہلکار بھی کرپشن کے دلدادہ ہیں لیکن مذکورہ اہلکاروں کے سامنے وہ سب طفلانِ مکتب ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ تھانے میں آئے ہوئے سائلوں کے کپڑے تک اتروا لیتے ہیں۔ اگر کوئی ان کی شہرت سے خوفزدہ ہو کر کپڑے گھر اتار آئے تو یہ دونوں ان کے جسم سے دوچار خون کی بوتلیں نکال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تھانے میں داخل ہوتے ہی غریب سائلوں کا خون خشک ہو جاتا ہے۔ ان کی کرپشن سے تنگ آ کر علاقے کے مظلوم اور غریب عوام نے سوچا کہ پولیس کے کسی اعلیٰ افسر کے پاس ان کی شکایت کی جائے لیکن ایک سیانے نے کہا کہ کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اعلیٰ افسروں کی نظر میں چھوٹے اہلکاروں کی کرپشن روٹین کی بات ہے۔ وہ تمہاری عرضی پڑھتے ہی پھاڑ ڈالیں گے اور اگر کسی طرح اہل کاروں کو پتہ چل گیا کہ تم لوگوں نے ان کی شکایت کی ہے تو سانس لینے کی آزادی سے بھی محروم کر دیئے جائو گے۔ یہ سن کر سب نے مایوسی کے عالم میں اس سیانے سے پوچھا کہ پھر کیا کیا جائے۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر یوں گویا ہوا، ’’بھائیو، لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ ہومیو پیتھی کے اصولوں کے تحت زہر کا علاج زہر سے کیا جاتا ہے‘‘۔ یہ سن کر سب نے کہا ’’یہ سچ ہے۔ واقعی لوہے کو لوہا کاٹتا ہے‘‘۔ اس پر سیانے نے کہا ’’میں دو ڈاکوئوں کو جانتا ہوں جو پرائمری سکول میں میرے ہم جماعت تھے اور ہیڈ ماسٹر کی شیروانی سے آٹھ روپے نکالنے کے جرم میں سکول سے نکال دیئے گئے تھے۔ پرانے دوست ہونے کے ناطے وہ گاہے بگاہے مجھ سے ملتے رہتے ہیں بلکہ کسی اہم واردات سے پہلے مجھ سے مشورہ بھی کر لیتے ہیں۔ میں ان کا مشیر ضرور ہوں لیکن اللہ کے فضل سے کبھی ان کا شریک جرم نہیں رہا۔ البتہ دوستی کا حق ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اب رہی اصغر علی اور نصیر کی بات تو مجھے یقین ہے کہ ان چھوٹے ڈاکوئوں کا علاج بڑے ڈاکوئوں کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ یوں تو بڑے ڈاکو پولیس میں بھی بہت ہیں لیکن وہ اپنے پیٹی بھائیوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگ چاہئیں جو ڈاکو تو اعلیٰ درجے کے ہوں لیکن پولیس میں نہ ہوں۔ چنانچہ میرا مشورہ ہے ان دونوں سے التجا کی جائے کہ وہ آپ کو ان اہلکاروں کے چنگل سے نجات دلائیں۔ سیانے کی بات سن کر سب عش عش کر اُٹھے۔ انہوں نے کہا ہمیں جلد از جلد اپنے ڈاکو دوستوں سے ملوائو۔ سیانے نے کہا وہ پچھلے دنوں ایک واردات کے سلسلے میں لاہور گئے تھے، ممکن ہے واپس آ گئے ہوں۔ میں آج شام ان کو ملنے جائوں گا۔ آپ لوگوں کو ساتھ نہیں لے جائوں گا کہ ان کا شمار علاقے کے شرفاء میں ہوتا ہے۔ میں ان کا پردہ چاک نہیں کر سکتا۔ سب نے کہا آپ اکیلے ہی اس معاملے کو ہینڈل کریں۔ چنانچہ وہ سیانا اسی شام ان کو ملنے گیا۔ اتفاق سے وہ دونوں فارغ تھے اور اگلی واردات کی پلاننگ کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے پرانے دوست کی بات غور سے سن کر کہا کہ کل شام تک تمہارا کام ہو جائے گا۔ پولیس کی یہ مجال کہ وہ ہم جیسے جہاں دیدہ ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے۔ سیانے نے واپس آ کر لوگوں کو خوشخبری سنائی کہ کل شام تک ان اہلکاروں کا دماغ درست ہو جائے گا۔ اگلے روز دونوں ڈاکو سیالکوٹ پسرور روڈ پر برساتی نالے کے کنارے کھڑے ہو گئے کیونکہ ان کے علم کے مطابق دونوں اہلکار وہاں سے گزرنے والے تھے اور یہی ہوا۔ دو بجے کے قریب دونوں اہلکار خوش گپیاں کرتے ہوئے وہاں سے گزر رہے تھے کہ دونوں ڈاکوئوں نے ان پر سرپرائز اٹیک کر دیا۔ پولیس اور ڈاکوئوں میں یہ فرق بہرحال ہوتا ہے کہ پولیس والے بزدل ہوتے ہیں اور ڈاکو جی دار ہوتے ہیں۔ ڈاکوئوں کو دیکھ کر ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑک ر سرپرائز اٹیک کی وجہ پوچھی تو ڈاکوئوں نے کہا ابھی بتاتے ہیں۔ ڈاکوئوں نے پہلے تو ان سے سرکاری رائفلیں چھینیں بلکہ یوں کہیے کہ انہوں نے خود ہی رائفلیں ڈاکوئوں کی خدمت میں پیش کر دیں۔ پھر ڈاکو انہیں کشاں کشاں برساتی نالے کے کنارے ایک درخت کے نیچے لے گئے۔ ڈاکوئوں نے دیکھو ہم تمہارے اپنے ہیں۔ مقولہ ہے کہ اپنا مارے گا تو چھائوں میں پھینکے گا۔ ہم بھی تمہیں مار کر اس درخت کی چھائوں میں پھینکیں گے تا کہ تم دھوپ سے بچے رہو۔ یہ سن کر دونوں منت سماجت کرنے لگے۔ اس روز کی رشوت کی تمام کمائی بھی انہوں نے ڈاکوئوں کو پیش کر دی لیکن ڈاکوئوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ہماری کمائی میں بیوائوں اور یتیموں کا مال نہیں ہوتا جبکہ تمہاری کمائی میں زیادہ تر انہی لوگوں کا مال ہوتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے پولیس اہلکاروں کو مرغا بننے پر مجبور کر دیا۔ جب وہ مرغے کے پوز میں زیادہ دیر تک نہ رہ سکے تو زمین پر گر گئے۔ دراصل ان کے پیش مرغا بننے کی راہ میں حائل ہو رہے تھے۔ تب ڈاکوئوں نے پے در پے انہیں ٹھُڈّے مارتے ہوئے کہا ’’حرامخورو! کرپشن کرتے ہو۔ مرد ہو تو ہماری طرح ڈاکے ڈالو۔ ہم اس کے ہاں ڈاکہ ڈالتے ہیں جو خود بھی ڈاکو ہوتا ہے اور تم؟۔۔۔۔ تم غریبوں، بیوائوں، یتیموں اور مجبوروں کا خون چوستے ہو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اہلکاروں کے ہاتھ پیچھے باندھے اور انہیں وہیں چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئے کہ اگر تم لوگوں نے کرپشن ختم نہ کی تو آئندہ بھی اسی طرح کارروائی ہوتی رہے گی۔ ہاں اگر کوئی کرپش،ظالم یا گھٹیا قسم کا بدمعاش تمہارے ہتھے چڑھ جائے تو اس کا دماغ درست کرنے میں دیر نہ کرنا۔ ٭٭٭٭٭