مانا کہ علامہ اقبالؒ بالکل درست فرما گئے ہیں کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا سادگی میں بڑا حسن ہے۔ سادگی کی باتیں بڑی دل کش، بڑی پرکشش اور بڑی خوش نما لگتی ہیں مگر حلف اٹھانے کی دیر ہے پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ عمران خان کے سامنے ایک سے ایک بڑا امتحان ہوگا۔ وہ ایک دریا کے پار اترے گا تو دوسرا دریا اس کا منتظر ہوگا، وہ ایک محاذ سر کرے گا تو کوئی اس سے بڑا محاذ اسے آنکھیں دکھارہا ہوگا۔ خیال اپنا اپنا اور رائے اپنی اپنی۔ تاہم ہماری رائے میں اگر عمران خان ایک چیز پر قابو پائے گا تو اس کے ہاتھ میں تمام تالوں کی شاہ کلید آ جائے گی۔ عمران خان اگر انا کے سرکش گھوڑے پر قابو پانے کا ہنر سیکھ چکا ہے یا کسی مرد خود آگاہ نے یا کسی عرفان آگہی کی دولت سے مالا مال ہستی نے کسی روحانی پھونک سے اس کے اندر وصف پیدا کردیا ہے تو انشاء اللہ وہ منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا بالآخر اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے گا۔ یوں تو انسان کے رستے میں خود انسان بڑے بڑے کانٹے بچھاتے ہیں بقول خلیل بدایونی غیر تو غیر سہی اپنوں نے بچھائے کانٹے عمران خان کے ساتھ جو لوگ برسوں سے کام کر رہے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ عمران خان جو کچھ کہتا ہے وہ کسی دکھاوے یا دھوکے کے لیے نہیں کہتا بلکہ وہ دل سے چاہتا ہے کہ اپنی قوم کے لیے مزید کچھ کرکے دکھائے۔ اس بارے میں کپتان کا ٹریک ریکارڈ بہت حوصلہ افزا ہے۔ اس نے قوم کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کردیا، اس نے قوم کو بین الاقوامی معیار کا کینسر ہسپتال بنا کر اور چلا کر دکھایا۔ شاید سعودی عرب کے بعد دنیا کا یہ واحد کینسر ہسپتال ہے جہاں تقریباً 75 فیصد مریضوں کا اسی معیار کا مفت علاج کیا جاتا ہے جس معیار کا اپنی جیب سے ادائیگی کرنے والوں کا کیا جاتا ہے اور صوبہ خیبرپختونخوا کے سوشل سیکٹر میں دور رس تبدیلیاں بھی اس کے کریڈٹ میں ایک اچھا اضافہ ہیں۔ سادگی کے درس سے اپنی نئی اننگز کا آغاز ایک قابل تحسین اقدام ہے مگر اس کی حیثیت کسی دعوت طعام میں سلاد چٹنی سے زیادہ نہیں۔ دعوت کا اندازہ تو کھانے کی ڈشوں سے ہی لگایا جائے گا۔ چینلجز کا ذکر کرنے سے پہلے تھوڑی سی بات سادگی پر بھی کرلیتے ہیں۔ آج کل جس طرح کی ویڈیوز اور تصویریں پی ٹی آئی کی طرف سے وائرل کی جا رہی ہیں ان میں کسی سفیر کے سامنے پانی کی ایک بوتل رکھی دکھائی جاتی ہے کہیں کسی اہم شخصیت کے سامنے ایک آدھ کپ کی نمائش کی جاتی ہے۔ سادگی ضرور اختیار کریں مگر نفاست کے ساتھ، وضع داری کے ساتھ، اور آداب مہمان نوازی کے ساتھ۔ اسلام آباد کا وزیراعظم ہائوس ہماری داخلی نہیں ہماری بین الاقوامی ضرورت ہے۔ دنیا سے آئے روز وہاں عالمی شخصیات آتی رہتی ہیں، ان کے ساتھ وفود بھی ہوتے ہیں لہٰذا ایک ایسی فراخ جگہ تو ہونی چاہیے جہاں واجب احترام شخصیات کا باوقار انداز میں استقبال کیا جا سکے۔ البتہ سارے پاکستان میں بالخصوص پنجاب کے مختلف ضلعی مقامات پر ابھی تک نو نو سو اور ہزار ہزار کنال کے پولیس افسران اور کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے بنگلوں کو کیوں ختم نہیں کیا جارہا۔ انہیں ختم کرکے ہم کئی ارب روپے جمع کرسکتے ہیں اور کئی ارب کے سالانہ اخراجات بچا سکتے ہیں۔ پاکستان کا نیا وزیراعظم بنی گالہ میں رہاش پذیر ہو یا پہاڑی سے اتر کر منسٹرز اینکلیلو کی نسبتاً کم بلندی پر آ جائے یا وزیراعظم ہائوس میں مقیم ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ کتنا Accessable ہے۔ عمارتوں کی شان و شوکت اور سادگی اپنی جگہ اہم ضرور ہے مگر اصل فرق مکینوں کے انداز بودوباش اور طرز حکمرانی سے واقع ہوگا۔ اگر وہی پرانے مغل اعظم سٹائل حکمرانوں جیسا انداز ہوگا جس میں وزیروں، مشیروں کو بھی اہم ترین معاملات زیر بحث لانے کے لیے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے سال سال بھر انتظار کرنا پڑے گا۔ بڑے اور چھوٹے میاں صاحبان بلکہ مزید چھوٹے خادم اعلیٰ ان دی میکنگ بھی رعایا کو اپنی ایک جھلک دکھانے پر آمادہ نہ ہوں گے تو پھر کسی محل، کسی چھوٹے گھر، کسی بڑے سرکاری ہائوس میں رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ عمران خان اپنے وزیروں، مشیروں، پارٹی کے مخلص ورکروں اور سائلوں کے لیے قابل حصول ہوں گے یا نہیں۔ اب آئیے اصل چیلنجز کی طرف۔ بالعموم کوئی پارٹی صرف اس منشور کے لیے جوابدہ ہوتی ہے جو وہ انتخاب سے پہلے پیش کرتی ہے مگر عمران خان تو اپنے 22 برس پر محیط وعدوں کے لیے قوم کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ کئی دانشور خواتین و حضرات عمران خان کو گائیڈ کر رہے ہیں کہ وہ سب سے پہلا کام کیا کرے۔ ہم گائیڈ تو نہیں مگر عرض ضرور کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلا کام تو انگریزی محاورے کے مطابق کلہاڑوں کو دفن کرنے والا کریں۔ یعنی ساری سیاسی، ذاتی اورقرابت داری کی مخاصمتوں اور رنجشوں کو ختم کریں اور ایک جنگ جو سیاست دان کی بجائے ایک مدبر حکمران کا باوقار انداز اختیار کریں کہ جس کا ماٹو ہو کہ زمانے کو ساتھ لے کر چلو۔ عمران خان کے ایک قریبی دانشور ساتھی سے میں نے کہا کہ خان کے سامنے بہت سے مشکل کام ہیں۔ خان کے دوست نے جواب دیا کہ کپتان نے کب کسی آسان کام کو ہاتھ ڈالا ہے؟ مشکل کام ہی تو اس کے ذوق عمل کو تیز تر کرتے ہیں۔ آغاز تو معاشی چیلنج سے کرنا ہوگا کیونکہ تجارتی خسارہ حد سے بڑھ چکا ہے۔ بیرونی قرضوں کا پہاڑ ہے، برآمدات بہت کم اور درآمدات بہت زیادہ ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور روپے کی قدر بہت نیچے گر چکی ہے۔ پھر پانی کا مسئلہ ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے کوئی ڈیم نہیں بنایا جا سکا۔ اس دوران متفقہ ڈیمز بھی متنازع بن چکے ہیں۔ قرض پر قرض لے کر تھرمل بجلی پیدا کی گئی جو ہماری ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ سمندر کنارے آباد کراچی جیسے تجارتی دارالحکومت میں پانی ناپید ہے۔ Water, Water Eever where but not a drop to drink. دو ڈی سیلی نیشن پلانٹس لگا دیئے جائیں تو کراچی کا آبی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آبادی ہے کہ بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہی ہے۔ نہ دینی احکامات و تعلیمات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف قائم ہی اس لیے کی گئی تاکہ لوگوں کو انصاف مل سکے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کے لیے شب و روز تگ و دو کرنے والے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے گھر یعنی انصاف گھر میں اصلاحات نہیں کرسکے۔ بلامبالغہ ایک ایک مقدمے کے حتمی فیصلے تک پچیس تیس برس بیت جاتے ہیں۔ اس دوران مدعی اور ملزم اللہ کو پیارے ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کی جگہ ان کی نئی نسلیں لے لیتی ہیں مگر مقدمہ چلتا رہتا ہے اور فریقین کی جائیدادیں بکتی رہتی ہیں او روہ مقروض ہو جاتے ہیں مگر فیصلے کی گھڑی نہیں آتی۔ تعلیم بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یکساں نظام تعلیم عمران خان کا بہت پرانا خواب ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی یکساں نظام تعلیم جاری کرنے کے لیے بہت ہوم ورک کیا تھا اور بالآخر اس کے عملی نفاذ کا فیصلہ بھی کرلیا گیا تھا مگر نظام کہنہ کے پرستاروں نے حیلوں بہانوں سے میٹرک تک اپنی زبان میں صرف اور صرف ایک طرز تعلیم کا خواب چکنا چور کردیا۔ آزادی کے ستر برس کے بعد بھی ہمارے سرکاری دفتروں میں وہ زبان رائج ہے جسے سمجھنے سے 90 فیصد آبادی قاصر ہے۔ نفاذ اردو بانی پاکستان کا فرمان بھی ہے، دستوری تقاضا بھی ہے اور عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بھی ہے۔ اسی طرح تمام تر مبالغوں کے باوجود شرح خواندگی پچاس پچپن فیصد سے زیادہ نہیں اور اڑھائی کروڑ بچے زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ طبی سہولتوں سے محروم ہے۔ عمران خان نے قوم سے میڈیکل انشورنس کا وعدہ کر رکھا ہے۔ طبی انشورنس کوہ ہمالیہ سر کرنے کے مترادف ہے کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان کو 2 نمبر بلکہ تین اور چار نمبر دوائوں کا علاج بھی کرنا ہوگا۔ موت کے سوداگر تو وہ دوائیں بھی جعلی تیار کر رہے ہیں جنہیں لائف سسیونگ ڈرگز کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملاوٹ کی لعنت بھی عروج پر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا تو رہی ایک طرف اکثر تیسری دنیاکے ممالک میں بھی ملاوٹ کا کوئی تصور نہیں۔ یہ لعنت زیادہ تر برصغیر پاک و ہند میں ہی پائی جاتی ہے۔ خارجہ تعلقات کا مسئلہ کشمیر کا چیلنج اس کے علاوہ ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اتنے سارے پہاڑ سے کام اکیلا عمراان خان کیسے کرے گا۔ جرمنی و جاپان جیسے بڑے بڑے تباہ حال ملکوں نے تعمیر نو کے محیرالعقول کارنامے انجام دیئے۔ یہاں پاکستان میں عمران خان یہ معجزہ کیسے برپا کریں گے؟ اس کا بڑا سادہ طریقہ ہے، عمران خان نیک نیتی کے ساتھ بسم اللہ کریں گے تو تائید ایزدی بھی آئے گی اور اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں کی بھرپور امداد بھی۔ بس نمائشی کاموں سے اجتناب کیا جائے اور حقیقی اقدامات پر توجہ مرکوز کی جائے۔