جاوید دفتر جا رہا تھا۔ اس کی موٹر سائیکل سے ایک ویگن ٹکرائی اور وہ شدید زخمی ہو کر ہسپتا ل جا پہنچا ۔ اس کی حالت تو خطرے سے باہر تھی لیکن علاج طول پکڑ گیا۔ اس کی بیوی تقریباً روزانہ ہسپتال آتی تھی ۔ ایک روز اس نے بیوی سے کہا ،’’رات امی خواب میں آئی تھی۔ اس نے کہا ، ’’ میرے پاس آجائو ۔ میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ ‘‘ یہ سُن کر بیوی نے کہا، ’’کمینی ، مرنے کے بعد بھی سازشوں سے باز نہیں آئی۔‘‘ جمیل سے ماں کی توہین برداشت نہ ہوئی۔ غصّے میں بولا،’’ماں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنے گھر کے جہنم کو چھوڑ کر میرے پاس جنت میں آجائو۔‘‘ بیوی نے جواب دیا، ’’تم تو اللہ جانے کب اِس جہنم کو چھوڑو گے لیکن میں ابھی چھوڑ رہی ہوں۔ـ‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور تب سے اپنی ماں کے پاس رہ رہی ہے۔ ٭٭٭٭ میرا ایک پرانا شاگرد ہے سلطان۔ کافی سینئر ہے اس لئے اب میں اسے شاگرد کم اور دوست زیادہ سمجھتا ہوں۔ بیوی کے ساتھ اکثر لڑائی رھتی ہے۔ کل کی خوفناک جنگ کی وجہ یہ بنی کہ وہ دونوں کسی کام سے گھر سے نکلنے لگے تو بیوی نے کہا، ’’ذرا رکو، میں ماسک پہن لوں۔ ‘‘ یہ سُن کر سلطان نے کہا ، ’’تمہارے چہرے پر پہلے ہی کافی ماسک ہیں۔ ایک اور پہن کر کیا کرو گی! ‘‘ اس فقرے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب رات کے بارہ بجنے والے ہیں۔ وہ میرے پاس ہے اور کہتا ہے کہ ، ’’سر آج میں آپ کے ہاں رہوں گا۔‘‘ ٭٭٭٭ یہ واقعہ چند سال پیشتر دھلی میں میرے ایک دوست رمیش کمار نے سنایا تھا۔ آپ یہ واقعہ اسی کی زبانی سنیں: ایک جو تشی میرے دوست ہیں جن کا نام ہنس راج پٹیل ہے۔ ایک روز وہ مجھے دکان پر ملنے آئے۔ انھوں نے میرے کہنے پر میرا ہاتھ دیکھا۔پھر کاغذ پر میرے کچھ کوائف لکھے۔ ستاروں اور سیاروں کا کچھ حساب کتاب لگایا اور مجھے کہا کہ میں تمہیں ایک ہسپتال میں ناشتہ کرتے دیکھ رہا رہوں۔ میں نے پوچھا، ’’ہسپتال کی کنٹین میں یا وارڈ میں؟ ‘‘ جواب ملا ’’وارڈ میں ۔‘‘ میں نے کہا ، ’’تم جوتشی لوگوں کے پاس سوائے منحوس خبروں کے کچھ نہیں ہوتا۔ میں بھگوان کی کر پا سے بالکل بھلا چنگا ہوں۔ تم اپنی بکواس اپنے پاس رکھو۔‘‘ بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک صبح میں بر آمدے میں بیٹھا تھا۔ میری بہن میرے سامنے رکھی میز پر ایک ٹرے میں ناشتہ رکھ گئی۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے ناشتے سے پہلے گیس ٹربل کا کیپسول لینا ہے۔ چنانچہ میں اُٹھ کر اندر گیا۔ کیپسول لے کر باہر آرہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کوا سینڈوچ پر ایسے چونچیں مار رہا ہے گویا باپ کا مال ہے۔ میں اسے بہن کی وزنی گالی دیتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھا تو پائوں پھسل گیا۔ میرے دونوں ہاتھ میز پر پڑے اور پھر میں اور میز اکٹھے فرش پر گرے۔ مجھے کافی چوٹیں آئیں۔چھوٹے بھائی بہن اور بیوی نے مجھے اٹھا کر کار میں رکھا اور ہسپتال لے گئے۔ ابتدائی مرہم پٹی کے بعد مجھے وارڈ میں پہنچا دیا گیا۔ جب میرے ہوش و حواس قدرے بحال ہوئے تو میں نے بھائی سے کہا ، ’’یار بھوک لگ رہی ہے۔ ناشتے کا بندوبست کرو۔‘‘ تھوڑی دیر بعد میں ناشتہ کر رہا تھا اور ہنس راج پٹیل کسی سیارے پر بیٹھا مجھے دیکھ رہا تھا۔ بدمعاش کہیں کا!!۔ ٭٭٭٭ ڈاکٹر پرویز اسلم میرا شاگرد ہے۔ گزشتہ ہفتے بس سٹینڈ پر مجھے اسلام آباد کے لئے رُخصت کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’ اللہ کرے آپ بخیرو عافیت منز لِ مقصود تک پہنچیں ۔ میری دوائیں آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ ٭٭٭٭ اورنگ زیب عالمگیر ٹوپیاں سی کر اپنی روزی کماتے تھے۔ محل کے اخراجات پورے کرنے کے لیے روزانہ سینکڑوں ٹوپیاں تیار کرنا پڑتی تھیں۔ چنانچہ کئی گز کپڑا اور دھاگہ خریدا جاتا تھا جس کی قیمت سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی تھی۔ ٹوپیوں کا کپڑا کاٹنے کے لئے بیس ملازم رکھے گئے تھے۔ ان کی تنخواہ بھی سرکاری خزانے سے دی جاتی تھی۔ بادشاہ سلامت روزانہ اتنی ٹوپیاں سی لیتے تھے کہ محل کے اخراجات کے علاوہ بیگم ، شہزادوں اور شہزادیوں کا خرچہ بھی نکل آتا تھا۔ ٹوپیوں کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لئے دس ملازم رکھے گئے تھے جو سرکاری خزانے سے تنخوا ہ وُصول کرتے تھے۔ عید کے روز شہنشاہ ہند اپنی بیگمات کو ایک ایک ٹوپی بطورِ عیدی دیا کرتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت ٹوپیاں سینے میں لگ جاتا تھاجس کی وجہ سے وہ امورِ سلطنت کی طرف دھیان نہ دے سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت مغلیہ زوال پذیر ہوگئی۔ ٭٭٭٭ بیوی: مجھے آج عید کے لئے سوٹ خریدنا ہے۔ شوہر : لیکن میں کل فارغ نہیں ہوں۔ بیوی: کل کا کس نے کہا ہے! مجھے آج جانا ہے۔ شوہر: کل تُم نے سوٹ تبدیل کروانے بھی تو جانا ہے۔ ٭٭٭٭ چند ماہ پہلے میں نے جی سی یونیورسٹی کے ایک چپڑاسی کا ذکر کیا تھا جو ’’غالباً‘‘ کی بجائے ’’تقریباً‘‘ کا لفظ استعمال کرتا تھا ۔ مثلاً اگر یہ کہنا ہو کہ ’’کل غالباً بارش ہوگی‘‘ تو وہ کہتا تھا ، ’’کل تقریبا ً بارش ہوگی۔‘‘ ایک بار اُس نے مجھے ایک عورت کا واقعہ سُنایا میں نے پُوچھا ، ’’وہ عورت کنواری تھی کہ شادی شدہ۔‘‘ ’’تقریباً شادی شدہ تھی‘‘ جواب ملا۔ ٭٭٭٭ یار ایک بات تو بتائو۔ جنت میں شیعوں ، سنیوں، وھابیوں، بریلویوں ، دیو بندیوں، اہلِ حدیث، اہلِ قرآن، چکڑالویوں اور پرویزیوں وغیرہ کے لیے الگ الگ باغات ہوں گے یا سب کے لیے ایک ہی گریٹر پارک میں سیر و تفریح اور جلسے جلوسوں کا بندوبست کیا جائے گا؟ کسی کے پاس کوئی خبر ہے تو لازمی شیئر کرے ٭٭٭٭ عمران خان صاحب اکثر فرماتے ہیںکہ ہم غریبوں کو اوپر اُٹھائیں گے لیکن غریب اب تک وہیں کے وہیں ہیں۔ اس کی وجہ میں نے اس شعر میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے: درد جب ہو رہا ہو گھٹنے میں کچھ تو لگتی ہے دیر اُٹھنے میں ٭٭٭٭ فلم سٹار میرا اکثر خبروں میں رہتی ہیں ۔ ایک بار خبر آئی کہ میرا کا کرونا ٹیسٹ نیگیٹیو آیا ہے۔ یہ سُن کر کسی نے کہا، ’’ اُ ن کا انگریزی کا ٹیسٹ بھی نیگٹیو آیا تھا۔‘‘ ایک بار انٹر ویو کے دوران میں اُن سے پوچھا گیا ، ’ ’ لوگ کہتے ہیں کہ ، ’’آپ غلط انگریزی بولتی ہیں ۔‘‘ میرا نے جواب دیا، ’’ میری انگریزی، میری مرضی۔‘‘