جیساکہ آپ کے علم میں ہے میاں شہبازشریف جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے جلسوں میں اکثر حبیب جالب مرحوم کی یہ نظم پڑھتے تھے ’’ایسے دستور کو‘ صبح بے نور کو‘ میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا۔‘‘ ایک روز میاں نوازشریف نے شہباز شریف سے کہا سوچ سمجھ کر بولا کرو۔ تم جس دستور کو نہ ماننے کی دہائی دیتے ہو اسی دستور کے تحت میں وزیراعظم ہوں اور تم وزیراعلیٰ ہو۔ اگر تم اس دستور کو نہیں مانو گے تو ہمیں کون مانے گا۔ شہبازشریف نے بات ٹالنے کی غرض سے کہا‘ اچھا بھائی جان چھوڑیں اس بات کو۔ میں کل پی آئی سی (پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی) کا دورہ کرنے جارہا ہوں۔ یہ سن کر نوازشریف نے کہا ضرور جائور اور ہاں پی آئی سی سے چند قدم کے فاصلے پر ایک اور ہسپتال بھی ہے۔ میٹنل ہسپتال لگے ہاتھوں وہاں سے بھی ہوتے آنا۔ ٭٭٭٭٭ جب میاں نوازشریف کو علاج معالجے کے لیے لندن جانے کی اجازت مل گئی تو کوٹ لکھپت جیل سے روانہ ہوتے وقت سپرنٹنڈنٹ جیل سے کہا میں جتنا عرصہ یہاں رہا ہوں‘ آپ نے میرا بہت خیال رکھا‘ میں آپ کا شکر گزار ہوں اور ہمیشہ آپ کو یاد رکھوں گا۔ میں آپ کا خادم ہوں میاں صاحب سپرنٹنڈنٹ نے کہا اس جیل کے دروازے ہمیشہ آپ کے لیے کھلے رہیں گے۔ ٭٭٭٭٭ جنرل ضیاء الحق بلا کے سگریٹ نوش تھے۔ ایک بار کھانسی نے زور کیا تو انہوں نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد کہا جناب صدر۔ آپ کو سگریٹ چھوڑنے پڑیں گے۔بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے جنرل صاحب نے کہا۔ دیکھیے۔ میں عرض کرتا ہوں جب بھی آپ کا جی سگریٹ پینے کو چاہے آپ خود سے مخاطب ہو کر کہیں میں آئندہ سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں سگریٹ نوشی ترک کر چکا ہوں۔کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جنرل صاحب نے کہا میں اکثر اپنے آپ سے جھوٹ بولتا ہوں۔ ٭٭٭٭٭ میاں شہبازشریف نے چند دن پہلے عدالت میں اپنا یہ دعویٰ پھر دہرایا کہ میں نے آج تک ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ انہوں نے بالکل سچ کہا کیونکہ دھیلے قیام پاکستان سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ ہاں اگر وہ یہ کہیں کہ میں نے ایک روپے کی کرپشن نہیں کی تو یہ جھوٹ ہوگا۔ ٭٭٭٭٭ میاں شہبازشریف اپنے جلسوں میں آصف زرداری اور اس کے حواریوں کے لیے علی بابا چالیس چور کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک محفل میں سابق بیوروکریٹ سید شوکت علی شاہ صاحب نے ان سے کہا میاں صاحب‘ آپ نے صرف علی بابا چالیس چور کے الفاظ سنے ہیں۔ پوری کہانی غالباً نہیں پڑھی۔ علی بابا ایک ایماندار اور شریف النفس انسان تھے۔ آپ آصف زرداری کو علی بابا کہہ کر اسے ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں۔ یہ سن کر میاں صاحب پریشان ہو گئے۔ تو پھر کیا کہوں؟ میاں صاحب نے پوچھا۔آپ علی بابا کی بجائے زر بابا کہا کریں۔ اس کا مطلب ہوگا ملک و قوم کا سونا (دولت) لوٹ کر امیر بن جانے والا بابا۔ میاں صاحب نے شاہ صاحب کا مشورہ قبول کرلیا اور آئندہ جلسوں میں زر بابا اور چالیس چور کا نعرہ لگانے لگے۔ ٭٭٭٭٭ اب میں اپنے خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس نے اپنے وکیل سے کہا۔ وہ اکثر مجھے کہتا ہے میری طرف سے تم جہنم میں جائو۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا قانوناً میں بچوں کو ساتھ لے جا سکتی ہوں۔ ٭٭٭٭٭ اگر قانون میں جوا کھیلنا جرم ہے تو عدالتیں شادی کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑتیں۔ عدالتیں اس لیے انہیں نہیں پکڑ سکتیں کہ وہ بے چارے اللہ کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ افسوس‘ ہمارے سیاستدان برے بھلے میں تمیز نہیں کرسکتے۔ جی نہیں‘ وہ برے بھلے میں تمیز کرتے ہیں۔ بھلے کو ایک طرف کر دیتے ہیں اور برے کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ تمہارا خاوند ناشتے میں کیا پسند کرتا ہے؟ ابلا ہوا انڈہ‘ دہی کی لسی‘ پراٹھا‘ کافی‘ نہاری‘ بیئر‘ روٹ چکن‘ شہد وغیرہ تو وہ باکل پسند نہیں کرتا۔ تو پھر کیا کھاتا ہے؟ یہ سوال تو اس کے دفتر میں کنٹین والے سے پوچھنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ آپ نے یہ جو میری تصویر بنائی ہے میرے چہرے سے انصاف نہیں کرتی۔ خاتون نے فوٹو گرافر سے گلہ کیا۔ میڈم‘ آپ کے چہرے کو انصاف کی نہیں‘ رحم کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک محفل میں پی آئی اے کا ایک پائلٹ کہہ رہا تھا میرا ایمان ہے کہ پی آئی اے کے تمام پائلٹ جنت میں جائیں گے۔ وہ کیسے؟وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ پر لوگوں کا ایمان پختہ کرنے میں ہم نے بے مثال خدمات سرانجام دی ہیں۔ ہر مسافر جہاز میں داخل ہوتے ہی کہتا ہے یااللہ خیر۔ سر PIA سے کیا الفاظ بنتے ہیں؟ "PERHAPS IT ARRIVES" OSD سے کیا بنتا ہے؟ Officer in Serious Difficulty ٭٭٭٭٭ بڑے کرکٹرز پر بھی برا وقت آ جاتا ہے۔ ایک بار شاہد آفریدی مسلسل چار میچوں میں صفر یا دو چار رنز پر آئوٹ ہوتا رہا۔ ایک میچ کے دوران کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے ٹیم منیجر کو فون پر کہا کہ شاہد سے میری بات کروائو۔ سر شاہد میٹنگ کے لیے گیا ہے ابھی ابھی۔ اچھا ٹھیک ہے میں ہولڈ کرتا ہوں‘ چیئرمین نے کہا۔ ٭٭٭٭٭ ایک مرکزی سیکرٹری نے اپنے نئے دفتر میں نوازشریف کی تصویر لٹکی دیکھی تو اپنے پی اے کو ڈانٹتے ہوئے کہا تم نے میرے دفتر میں نوازشریف کی تصویر کیوں لٹکائی ہے؟ سر‘ نوازشریف لندن چلا گیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جو روپے سے زیادہ اہم نہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ وہ روپے کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ روپیہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اب اگلی مصیبت یہ ہے کہ روپیہ حاصل ہو جانے کے بعد باقی اہم باتیں بھول جانی ہیں۔ صرف یہی یاد رہتا ہے کہ روپیہ حاصل کرتے جانا ہے اور یہ کام مرتے دم تک جاری رکھنا ہے۔(میاں نوازشریف کی خودنوشت سے اقتباس)