نعیم ہاشمی صاحب ہمارے دادا دادی کی اکلوتی اولاد تھے، لیکن اس اکلاپن کا احساس نہ کبھی انہیں ہوا نہ کبھی ہمیں، وجہ تھے ہمارے وہ ڈھیر سارے چاچے جو روزانہ دن رات ہاشمی صاحب کے ارد گرد رہتے، ہاشمی صاحب گھر میں ہوں یا اپنے پروڈکشن آفس میں، وہ کنگ سرکل میں بیٹھے ہوں یا کسی فلم کی شوٹنگ میں مصروف، ہمارے دو، چار، چاچے ضرور انکے ہمراہ رہتے، چاچوں کے اس سیلاب کے سارے نام تو اب یاد نہیں رہے، البتہ کچھ چاچے ایسے ضرور تھے جن کی یاد کبھی نہیں بھلائی جا سکتی،خاص طور پرچاچا جی شیخ حمیداللہ تو ابا جی کے اتنے قریب تھے کہ سارا لاہور انہیں ہاشمی صاحب کا بھائی سمجھتا تھا، شیخ صاحب عموماً ان دنوں اوچ شریف سے فیملی سمیت لاہور آتے جب یہاں کرکٹ میچ ہو رہا ہوتا، یہ دونوں دوست ایک جیسے اسٹائل میں ایک جیسا لباس پہن کر گھر سے نکلتے تو سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے، ہمارے دوسرے خاص خاص چچاؤں میں شامل تھے۔ امرت (جو بعد میں ہندوستان چلے گئے)چاچا شیدا (ایم اے رشید) جو ہاشمی صاحب کو ڈیڈی کہتے تھے، چاچا جاجی( نعمان اعجاز کے والد) حامد گنجا ایکٹر، ایم جے ٹھاکر،مسکین لاہوری، حفیظ قندھاری،ملک رحیم، قتیل شفائی، صفدر صاحب جو ایک بہت ہی خوبصورت انسان تھے،ان کی موسیقی میں بہت دلچسپی تھی، ہاشمی صاحب کی نامکمل فلم ’’ چشم بددور‘‘ کے فنانسر بھی تھے) محمد حسین کنول،اسٹیفن اور چاچا نثار۔۔ ہمارے کئی چاچا تو ہاشمی صاحب سے اتنی محبت جتاتے تھے کہ ہم حیران رہ باتے، ایک چاچا جی کہا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے سرہانے ہاشمی صاحب کی تصویر آویزاں کر رکھی ہے تاکہ جب بیدار ہوں سب سے پہلے ہاشمی صاحب کا چہرہ دیکھیں، چاچا نثار کے بارے میں بتایا جاتا تھا کہ وہ پارٹیشن کے دوران بہت چھوٹی عمر میں ہمارے دادا نور الدین کو ملے تھے،ان کی سنتیں نہیں ہوئی تھیں،پتہ نہیں کہ مسلم تھے یا کچھ اور، ہمارے دادا انہیں گھر لے آئے، ہنر مند بنایا مذہب کے؟ جب کمانے کے قابل ہوئے تو اپنے رہنے کا الگ بندوبست کر لیا تھا، چاچا نثار ہر ہفتے کی رات ہمارے گھر آتے، اتوار ہم لوگوں کے ساتھ گزار کر پیر کی صبح اپنے کام پر چلے جاتے، وہ ابا جی کو باؤ کہا کرتے تھے،ان کے ہاتھ میں صافی کی ایک بوتل اور دو چقودرے لازمی ہوتے، وہ کہا کرتے کہ ان دونوں چیزوں کے استعمال سے انسان کاخون صاف ہوجاتا ہے، ہم چاچے نثار سے پوچھا کرتے کہ وہ ہفتے کے باقی چھ دن کہاں رہتے ہیں؟ کھانا کہاں سے کھاتے ہیں؟ وہ جواب دیتے۔۔۔ اوئے جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں قریب ہی ایک خاتون اختری بیگم کا گھر ہے، فسادات میں اس کا سارا خاندان قتل ہو گیا تھا،اختری بڑے شاندار کھانے بناتی ہے،، میں اسے کھانے کے پیسے دیتا ہوں، اسکی ایک بیٹی بھی ہے ننھی نام ہے اس کا، چاچا نثار اختری بیگم کا تذکرہ اتنی کثرت سے کرتے کہ وہ خاتون مجھے ہمارے گھر کا فرد ہی محسوس ہونے لگی۔ چاچا نثار ایک دن اختری اور اسکی بیٹی ننھی کو ہمارے آفس لکشمی چوک لے آئے، وہ کہہ رہے تھے کہ اختری بیگم نعیم ہاشمی کی فلمیں شوق سے دیکھتی ہیں ، میں انہیں ہاشمی صاحب سے ملوانے لے آیا ہوں، پھر ایک دو بار چاچا نثار مجھے اختری بیگم کے گھربھی لے گئے، اختری بیگم کی رہائش مال روڈ پر انڈس ہوٹل کے ساتھ تیسری بلڈنگ کی چھت پر تھی۔ وسیع و عریض کھلی چھت پر چھوٹا سا کمرہ، اس بلڈنگ کے عقب میں وکٹوریہ پارک کا علاقہ تھا جہاں اس دور میں اینگلو انڈین رہا کرتے تھے۔ جوان اینگلو انڈین لڑکیاں مال روڈ پر نیکریں پہنے سائیکلوں پر گھومتی دکھائی دیتی تھیں، ان دنوں آج کل جیسے لوگ نہیں ہوا کرتے تھے جن کا کام ہی ٹکٹکی لگائے ہر عورت کو دیکھنا ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہو۔ وقت گزرتا گیا،سب کچھ بدلتا گیا، میں کئی بار اکیلا بھی اختری بیگم سے ملنے گیا، ننھی پڑھتی پڑھتی اور بڑھتی بڑھتی گریجویشن کر گئی، ایک دن میں نے اسے بنک اسکوائر کے قریب پیدل چلتے ہوئے دیکھا، وہ سانولے رنگ اور سڈول جسم کی جاذب نظر دوشیزہ بن چکی تھی، میرے سلام کہنے پرننھی نے بتایا کہ اسے بنک آفیسر کی ملازمت مل گئی ہے، گھر قریب ہونے کی وجہ سے وہ پیدل ہی آفس آتی جاتی ہے۔ کئی سال اوربیت گئے، میرا مال روڈ پر مٹر گشت کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہی ہو گیا تھا ، کئی سال بعد میں میاں اعجاز الحسن کے ساتھ اختری بیگم والی بلڈنگ میں گیا، وہاں پہلے فلور پر، پرویز صالح نے وکالت کے لئے دفتر بنارکھاتھا،میاں اعجاز اور پرویز دونوں ان دنوں قومی محاذ آزادی کے پلیٹ فارم پرمعراج محمد خان کے ساتھ سیاست کر رہے تھے۔ پرویز صالح کے آفس میں بیٹھتے ہی میں نے ان سے پوچھا، یار! اس بلڈنگ کی چھت پر اختری بیگم رہا کرتی تھیں؟انہوں نے بتایا کہ وہ تو عرصہ پہلے مر چکی ہیں، اور ان کی بیٹی ننھی جو کسی بنک میں آفیسر تھی؟ پرویز صالح نے دکھی لہجے میں بتایا کہ ننھی اسی چھت پر ہی رہتی ہے ، اسکے ساتھ شاید محبت کے نام پر دھوکہ ہوا یا کوئی دوسرا سانحہ گزرا،اس کا سب رنگ روپ ختم ہو گیا ہے وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی ہے، ملازمت ختم ہو گئی تھی اس کی، اب اس کے ہاتھ میں کاسہ ہوتا ہے اور وہ مال روڈ پر بھیک مانگتی ہے، میرے کہنے پر پرویز صالح نے ایک آدمی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ننھی کو ڈھونڈ کر لائے۔ ننھی ایک خستہ حال ڈھانچے کی مانند پانچ منٹ بعد میرے سامنے بیٹھی تھی، وہ جاپان کی ان دو بہنوں سے بھی زیادہ بوسیدہ لگ رہی تھی، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ دنیا کی معمر ترین 107سال کی بہنیں ہیں،، ننھی کے لاغر ہاتھوں میں کاسہ تھا اور کاسے کے اندر سستے اسگریٹ کی ڈبیا۔۔پرویز صالح نے جب اسے بتایا کہ میں نعیم ہاشمی کا بیٹا ہوں تو اس کی دھنسی ہوئی آنکھوں اور دانتوں کے بغیر جبڑے میں معمولی سی جان پڑتی نظر آئی۔۔اس نے کہا،، میں تو اس کا سب جانتی ہوں، اس کی دوسری ماں کا نام شیریں ہے، اس کا چھوٹا بھائی اختر تھا،ان کے آفس میں جلال نام کا ایک پٹھان لڑکا ہوتا تھا،پرویز صالح کا دفتر کچھ عرصے بعد اب افتخار شاہد ایڈووکیٹ کے پاس آ گیا،یہ کہانی لکھتے ہوئے میں نے آج افتخار شاہد کو فون کرکے ننھی کے بارے میں پوچھا تو اس نے دکھی دل کے ساتھ بتایا کہ۔ ننھی تو مر گئی ہے، اس کا چھت والا قدیمی کمرہ بارشوں سے گر گیا تھا، دوبارہ تعمیر کرانا اس کی سکت میں نہ تھا، مجھ سمیت سب نے اس سے کہا کہ وہ ان کے آفس میں سو جایا کرے مگر وہ نہیں مانی تھی، کہتی تھی میں اپنی ماں کا گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ ٭٭٭٭٭ ننھی مر چکی ہے اور میں اس سوچ میں غرق ہوں کہ جب وہ مجھے ملی تھی تو میں اس کے کاسے میں کیوں کچھ نہ ڈال سکا تھا، ہاں! میں نے یہ سوچا تھا مگر خوفزدہ ہو گیا تھا کہ کہیں اس کی انا کو ٹھیس نہ پہنچے، ابھی تو ایک ننھی مری ہے، مگر امیر ترین مال روڈ کی سینکڑوں بلند و بالا عمارتوں کی چھتوں پر نہ جانے کتنی ننھیاں ابھی تک زندہ ہوں گی؟