ہمارے سروے میں یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ 82 فیصد جواب دہندگان کے مطابق ان کے خاندان کے تمام رجسٹرڈ ووٹرز ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیں گیاورصرف 6 فیصد نے کہاامیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے ان کے خاندانوں میں تقسیم تھی۔، تاہم، سروے میں اس بات کی نشاندبھی ہوئی کہ اگرچہ تھوڑی حد تک ، لیکن خاندان کے بزرگوں کا نوجوانوں کی سوچ سے اتفاق بڑھا ہے۔ پتن سروے میں یہ انکشاف بھی ہو ا کہ انتخابی عمل کے دوران ووٹ کی خرید فروخت بھی ہوتی رہی۔ جنہوں نے کہا کہ وہ ووٹ خریدنے کے بارے میں جانتے ہیں،ان میں سے 80فیصد نے پی ایم ایل این، 7فیصد نے پی ٹی آئی اور 10فیصد نے دونوں جماعتوں کو مورد ِالزام ٹھہرایا۔ تقریباً 18فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان کے خاندان کے کسی فرد کا ووٹ دوسرے علاقے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ایگزٹ پول کے مطابق 47 فیصد جواب دہندگان پی ٹی آئی اور 34 فیصد مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کا کہا۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے یہ انکشاف بالکل درست ثابت ہو ا ،تاہم ای سی پی کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن نے کل ووٹوں کا 39 فیصد حاصل کیا۔ ہمارے ایگزٹ پول کے نتائج اور ای سی پی کے نتائج کے درمیان پانچ فیصد فرق کو دھاندلی کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ جہاں 2018 سے مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک کم ہوتا جا رہا تھا، وہیں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔اس تبدیلی کے لیے دو عوامل ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے مقامی دھڑے بندیوں اور برادری رہنماؤں پر بہت زیادہ انحصار کرنا جاری رکھا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت نے مقامی چیپٹرز اور سوشل میڈیا کے ذریعے پارٹی کارکنوں سے براہ راست رابطہ قائم کیا۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان لڑائی دو نظریات کی لڑائی ہے ایک زوال پذیر اور ایک روشن خیال۔ مشہور و معروف نرسری نظم پی ایم ایل این کے زوال کوسمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے : Humpty Dumpty sat on a wall . Humpty had a great fall Dumpty . All the King" s horses, and all king's men. Couldn't put Humpty together again. تاریخ دان اور ماہرین عمرانیات صدیوں سے سلطنتوں کے عروج و زوال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ بجا طور پر اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ تبدیلی کا سبب بننے والا کوئی ایک عنصر ہوتاہے ، لیکن اکثر زوال میں اندرونی تضادات کو کلیدی وجہ قرار دیا گیا ہے۔علامہ اقبال کا مشہورشعر ہے کہ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ‘‘۔ مارکسی نظریہ تضادات جو کہ تاریخی مادیت اور جدلیات پر مبنی ہے ،مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے زوال کے آغاز کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کبھی پنجاب کی مقبول ترین جماعت تھی۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق کی بے رحم آمریت بھی اس کی مقبولیت کو نقصان نہ پہنچا سکی، لیکن جوں جوں نئی سماجی قوتیں ابھریں، انہوں نے منظم انداز میں اپنی رائے او ر بیانیہ کا اظہار کیا او ر اپنے مقام کے دعویدار بنے لیکن اس کے بعد پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا اس سے لا تعلق ہوگئے۔ انہوں نے پنجاب کی سیاست پر وہ توجہ نہیں دی جو دی جانی چاہئے تھی۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد اس حوالے سے صورتحال مزید گھمبیرتا کا شکار ہوئی اور رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ نئی جماعتوں اور قیادتوں کی ضرورت ایک حقیقت بن چکی ہے۔ اگرچہ تمام جماعتیں ملک میں جمہوریت کے فروغ کی دعویدار ہیں لیکن خود ان کے اپنے اندر جمہوریت کا فقدان ہے ۔ ان پارٹیوں میں نئے لوگوں کو قائدانہ کردار دینے کی بجائے شخصی اور وراثتی قیادت کو ترجیح دی جاتی ہے ۔مغرب میںگرین پارٹیوں کے عروج، انڈین نیشنل کانگریس کے زوال اور ہندوستان میں بی جے پی کے آنے والے عروج پر غور کریں۔ گوکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے مکمل خاتمے اور پی ٹی آئی کی مکمل فتح کی پیشین گوئی قبل از وقت ہے، لیکن قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کازوال اب نوشتۂ دیوار ہے۔ 'شاہ کے تمام گھوڑے اور بادشاہ کے تمام آدمی بھی شاید اب ہمپٹی کو اکٹھا نہ کر سکیں۔ (ختم شد)