ایک سماجی تقریب میں بھٹی صاحب سے تعارف ہوا۔ ان کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ ان کی باتوں کی سادگی و سچائی نے میرا دل موہ لیا۔ میں نے ان کی مصروفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اللہ نے دال روٹی کا باعزت بندوبست کر رکھا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی جسے میں نے قبول کر لیا۔ انہوں نے لاہور کے جس پلازے کا پتہ دیا وہ شہر کے ایک پوش علاقے میں واقع ہے۔ ’’دال روٹی‘‘ اوریہ پوش علاقہ ؟ میں ایک شام وقت طے کر کے ان کے بتائے ہوئے پلازے پر جا پہنچا۔ بھٹی صاحب نہایت تپاک سے ملے۔ یہ کئی شعبوں اور کئی کمروں پر مشتمل ایک تعمیراتی کمپنی کا دفتر تھا۔ دفتر کیا تھا آرٹ کا شاہکار تھا۔ فن اور سلیقہ عیاں تھا۔ آغاز گفتگو ہی میں مجھے اندازہ ہو گیاکہ یہ بلند و بالا اور وسیع و عریض پلازہ بھٹی صاحب کی اپنی ملکیت ہے۔ بھٹی صاحب نے میرے چہرے پر لکھے ہوئے سوالات کا اندازہ لگا لیا۔ کہنے لگے مجھے چند منٹ دیجیے پھرگپ شپ ہو گی۔انہوں نے اپنے پی اے کو کچھ ہدایات دیں اور اسے کہا کہ اب وہ کوئی کال ان کی طرف ٹرانسفر نہ کرے۔ پھروہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ چلئے جناب اب چائے کے کمرے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ ایک نہایت آرام دہ نشست گاہ تھی۔ دیواروں پر کچھ پیٹنگز آویزاں تھیں۔ بھٹی صاحب کہنے لگے چائے ایک دل خوش کن مشروب ہے تاہم دوستوں کے ساتھ چائے نوشی کے ’’تقدس‘‘ کا تقاضا ہے کہ اسے کاروباری لین دین اور سودے بازی کی کثافت سے محفوظ رکھا جائے۔ میری بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے بھٹی صاحب نے خود ہی آغاز گفتگو کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلا تکلیف آپ اگر کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو پوچھیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ پلازے اور یہ وسیع و عریض کاروبار آپ کو خاندانی ورثے کے طور پر ملا ہو گا؟ بھٹی صاحب مسکرائے اور انہوں نے کہا جناب بالکل نہیں یہ سب اللہ کا کرم اور 9ہزار روپے اور ایک شعر کی برکت ہے۔ میں نے عرض کیا بھٹی صاحب میں سمجھا نہیں اربوں کے کاروبار اور9ہزار روپے میں کیا مطابقت ہے۔ انہوں نے کہا جناب آپ چائے لیجیے میں اپنی کہانی اپنی زبانی آپ کو سناتا ہوں۔ میرے والد صاحب کوئی بڑے تاجر تھے نہ کوئی لینڈ لارڈ۔ وہ اسی شہر لاہور کی ایک ورک شاپ میں خراد مشین آپریٹر تھے۔ والد صاحب نے رزق حلال کی محدود سی آمدنی ہماری تعلیم پر خرچ کر دی۔ میں نے کراچی کے ایک ممتاز ادارے انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنس سے آئی ٹی میں بی ایس کی اور لاہور واپس آ گیا۔ لاہور میں مجھے ایک کمپیوٹر فرم میں 1980ء کی دہائی کے اواخر میں گیارہ بارہ ہزار روپے کی ملازمت مل گئی۔ اس زمانے کے اعتبار سے یہ معقول رقم سمجھی جاتی تھی۔ دوران تعلیم ہی میں نے اپنی کمپیوٹر فرم کا نہ صرف خواب دیکھا بلکہ اس کا ایک نہات بامعنی سا نام بھی سوچ لیا تھا جس کا مخفف بنتا تھا ایپکو۔ والد صاحب میری نوکری اور گیارہ بارہ ہزار کی ماہانہ آمدنی پرمطمئن تھے۔ مگر میں دو تین ماہ کے بعد ہی اس جاب سے مکمل طور پر اکتا گیا اور میں نے دل میں ٹھان لی کہ اپنا کام ہی کرنا ہے اور غیروں کی چند ٹکے کی نوکری نہیں کرنی۔ اب سوال یہ تھا کہ اپنے کام کے لئے تو بہت بڑی سرمایہ کاری درکار تھی جبکہ یہاں چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔والد صاحب سے تو بات کرنے کی مجھے ہمت نہ ہوئی کیونکہ وہ تو ملازمت کے حق میں تھے البتہ میں نے اپنی والدہ کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ اسی دوران نہ جانے کہاں سے میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے جو ٹپ ٹپ میرے گالوں پر گرنے لگے۔ والدہ نے مجھے گلے لگایا اور کہا تم ہمت کرو اللہ مدد کرے گا وہ اٹھیں انہوں نے پوٹلی لا کر میرے ہاتھ میں تھما دی جس میں ان کی ساری زندگی کی بچت 9ہزار روپے تھی۔ میں ابھی تک ذہن میں 9ہزار روپے اور اربوں کے کاروبار کے درمیان کوئی مطابقت تلاش نہ کر سکا۔ بھٹی صاحب نے ایک بار پھر میرا چہرہ پڑھ لیا۔ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ابھی تو زندگی کے نشیب و فراز کی ساری کہانی باقی ہے مگر آپ کچھ خیالوں میں کھو گئے ہیں میں نے خیالات سے چونکتے ہوئے کہا کہ بھٹی صاحب ! جاری رکھیے میں ہمہ تن گوش ہوں۔ بھٹی صاحب نے کہا کہ میں نے ان 9ہزارروپوں سے شادمان لاہور میں ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لی اور اس میں کمپیوٹر پرنٹرز میں استعمال ہونے والی کاٹرج کے ربن کی ری فلنگ کا کام شروع کر دیا کہاں دو اڑھائی ہزار روپے کی کاٹرج اور کہاں چار پانچ سو میں ری فلنگ۔ مگر ابھی اس کا زیادہ رواج نہ تھا۔ دن میں یہ کام اور شام کے بعد میں ٹیوشن پڑھاتا۔ چند دنوںکے بعد کچھ کام چل نکلا مگر پاکستان میں ہر کامیاب ہوتے ہوئے کام کی نقل کرنے کا دستورعام ہے لہٰذا جگہ جگہ ربن ری فلنگ کی دکانیں کھل گئیں۔ اور یوں یہ کام ٹھپ ہو گیا۔ اور 9ہزارروپے کی سرمایہ کاری بھی ڈوب گئی اب میرے پاس دکان کا کرایہ دینے کی رقم بھی نہ تھی اور اخراجات کے لئے بھی کوئی پیسہ نہ تھا۔ ڈیپریشن اپنے نقطہ عروج پر تھا دل ابھی تک پراعتماد تھا مگر دماغ میں سو طرح کے وسوسے آ جا رہے تھے اور میں یہ سوچنے لگا کہ دوبارہ نوکری کرلوں اور اس مہم جوئی کو ایک ڈرائونا خواب سمجھ کرہمیشہ کے لئے بھول جائوں‘ میں اسی شش و پنج میں غرق تھا کہ اچانک ایک مخلص اور پیارا دوست دکان میں مجھے ملنے اور کاروبار کا حال احوال پوچھنے آنکلا میں نے اسے ساری کہانی سنا ڈالی اس نے میری بات توجہ سے سنی اور پھر کہنے لگا کہ اس شعر کو غور سے سنواور پھر فیصلہ کرو۔ اس نے یہ شعر پڑھا ؎ نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا کہ بجلی بھی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہوجائے ڈاکٹر صاحب ! یقین کیجئے اس شعر نے میری زندگی میں حقیقی انقلاب برپا کردیا۔ بے یقینی یقین کامل میں بدل گئی۔ اس دن کے بعد پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آئی ٹی اورمارکیٹنگ میں میرا دماغ خوب چلتا تھا۔ میں نے بیرون ملک مقیم اپنی ایک سسٹر سے تھوڑی سی رقم ادھار لی اورکمپیوٹر کی شاپ کھول لی۔ اللہ نے اس میں ایسی برکت ڈالی کہ مجھے اپنی کمپیوٹر کمپنی نے سیلز کا ریکارڈ قائم کرنے پر ایوارڈ دیا اور سنگا پور کے ٹرپ پر بھیجا۔ میں نے کہا کہ بھٹی صاحب کمپیوٹر کہاں اور تعمیراتی کمپنی کہاں؟ انہوں نے کہاکہ زندگی مسلسل نشیب و فرازاور اتار چڑھائو کا نام ہے۔ کمیپوٹر سیلز کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد پھر ایک وقت آیا کہ یہ کام ٹھپ ہو گیا تب میں نے پراپرٹی کا کام شروع کر لیا۔اس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی اور میں نے اپنی اور کئی احباب کی خطیر رقم سٹاک میں لگا دی مگر 2008ء میں سٹاک میں ایک بین الاقوامی کساد بازاری کا شکار ہو گیا اور یہاں پاکستان میں ہماری ساری رقم ڈوب گئی۔ میں ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر کھڑا تھا مگر یقین کیجیے ایک لمحے کے لئے بھی پریشانی نہ ہوئی میں کھو جانے والے نشمین کو بھول کر اگلے نشیمن کی تعمیر میں جت جاتا۔ بحریہ ٹائون میں ایک پلاٹ سٹاک کے سونامی میں غرق ہونے سے بچ گیا تھا ۔ یہیں سے میں نے پراپرٹی کی خریدوفروخت اور تعمیراتی کام شروع کر دیا میں نے کاروبار میں جناب محمد مصطفی ﷺ کی اس حدیث کو ماٹو بنا لیا ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو اس لئے میں وہ پلاٹ کسی شخص یا فرم کو فروخت نہیں کرتا جو میں اپنے لئے خریدنا پسند نہ کروں اور اسی طرح میں جو تعمیراتی میٹریل اور معیار میں اپنے گھر کے لئے پسند کرتا ہوں وہی اپنے کلائنٹس کے لئے منتخب کرتا ہوں ایک اور حدیث پر میرا ایمان کامل ہے کہ دس میں سے نو حصے رزق کاروبار میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب! ماں کے 9ہزار روپے اور ایک شعر کی برکت سے میں کامیابی پر کامیابی حاصل کرتا جا رہا ہوں۔