جنگ عظیم اول کے ہنگامے جاری تھے۔ خلافت عثمانیہ کے مسلم اتحاد کو آہستہ آہستہ توڑ کر قومی ریاستوں میں تقسیم کیا جارہا تھا۔ لیکن اس دوران اس بات کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا کہ وہ اہم ترین علاقے جن کی علاقائی، تجارتی اور عسکری اہمیت ہو ان کا اختیار اور کنٹرول مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ جانے دیا جائے۔ خصوصا وہ علاقے جہاں سے جہاز رانی کر کے علاقے فتح کرنا یا تجارت کرنا مقصود تھا۔ یمن کا ساحلی شہر'' عدن'' ان میں سے ایک تھا۔ یہ بندرگاہ دراصل ایک چھوٹی سی سمندری پٹی بحیرہ احمر کے جنوبی کنارے پر واقع ہے جس کے شمالی کنارے پران دنوں نہر سویز ہے۔ نہر سویز کی کھدائی 1859ء میں شروع ہوئی اور 17 نومبر 1959ء کو فرانسیسی شاہی کشتی کو وہاں سے گزار کر اس کا افتتاح کیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ بحیرہ احمر، نہر سویز اور عدن کی بندرگاہ تمام یورپی نو آبادیاتی قوتوں کے لیے اہم ترین ہوگئے۔ نہر سویز سے پہلے جہاز جنوبی افریقہ کے کونے پر واقع راس امید کی بندرگاہ سے چکر کاٹ کر یورپ جایا کرتے تھے اور اب یہ فاصلہ ہزاروں سمندری میل کم ہو کر رہ گیا تھا۔اسوقت بھی عدن اس لئے اہم تھا کہ یورپ کے لئے یہاں سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا۔اسوقت یہ شہر جہاں صرف چھ سو عرب اور صومالی رہتے تھے، ان چھ سو لوگوں نے 1838ء ایک برطانوی جہاز روک لیا اور تاوان طلب کیا، جس پر 19جنوری 1839ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی بحری فوجیں وہاں اتار دیں اور صرف بندرگاہ کے تیرہ مربع کلومیٹر پر پڑاؤ ڈالا۔یہ بحری تاریخ کا نائن الیون تھا۔ نہر سوئز کے بعد یہ علاقہ 73 مربع کلومیٹر بڑھا دیا اور جب جنگ عظیم اوّل ہوئی تو برطانوی اس شہر کے 108 مربع کلومیٹر پر قابض ہوگئے، جہاں بیٹھ کر وہ یورپ، افریقہ اور امریکہ جانے والی بحری ٹریفک کو کنٹرول کرتے تھے۔ جنگ عظیم اوّل میں جب عدن سے ملحقہ شمالی یمن میں عثمانی خلیفہ کی افواج کو شکست ہوئی تو اتحادی افواج نے وہاں قبضہ کرنے کی بجائے زیدیوں کے سربراہ اور قبائلی رہنما امام یحییٰ کو آزادی کا اعلان کرنے میں مدد فراہم کی۔ یوں عدن کی بندرگاہ کے ساتھ ایک نئی یمنی قومی ریاست قائم ہوگئی۔ ایسی قومی ریاست کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اس کا مفاد امت مسلمہ سے علیحدہ کرکے اسے ''سب سے پہلے یمن'' کے نظریے تلے قائم حکومت بنا دی جائے۔ دوسری جنگ عظیم تک سب ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ ایک قبائلی، روحانی اور قومی سردار شمالی یمن میں،جبکہ یمن کا شہر عدن برطانیہ کے پاس۔ جنگ عظیم دوم کے بعدجب سرد جنگ کا زمانہ شروع ہوا تو ایسے تمام علاقوں کو تنازعات میں الجھایا گیاجو اہمیت کے حامل تھے۔ 1948ء میں امام یحییٰ کو اس کے پوتے نے قتل کر دیا اور ملک میں قبائلی خاندانی حکومت کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی۔ امام یحییٰ کے بیٹے، امام احمد نے باغیوں کو شکست تو دے دی لیکن اسے قبائلی نظام حکومت کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑا۔ 1962ء میں امام احمد کے مرنے کے بعد جب اس کے بیٹے نے اقتدار سنبھالنے کی کوشش کی تو فوج نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور جمہوریہ یمن کا اعلان کردیا۔ یہاں سے شمالی یمن میں ایک خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ امام احمد اور اس کے خاندان کو سعودی عرب اور اردن کی حمایت حاصل تھی جبکہ جمہوریہ یمن قائم کرنے والوں کی مدد روس کے حلیف مصر کا حکمران جمال عبدالناصر کر رہا تھا۔ ناصر نے اپنی 70 ہزار افواج یمن میں اتار دیں۔ یہ خانہ جنگی پانچ سال چلتی رہی جس میں دو لاکھ انسان مارے گئے۔ یمن کو مصر کا ویتنام بھی کہا جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ وہ یہاں پر بغاوت کو کچلنے میں ناکام رہا اور دوسرا اسی وجہ سے 1967ء میں جمال عبدالناصر کی کمزور فوج کو اسرائیلی افواج نے ذلت آمیز شکست دے دی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ادھر اسرائیل نے مصر کو شکست دی اور ادھر برطانیہ جس کے قبضے کے خلاف خلاف بغاوت جاری تھی اس نے اپنی افواج ''عدن'' سے نکال لیں۔ مصرتو عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے پہلے ہی وہاں سے جاچکا تھا،لیکن اسکے باوجود تین سال مزید خونریزی رہی ہے اوربالاخر 1970ء میں روس نژاد مارکسی قوتوں نے جنوبی یمن کے اقتدار پر قبضہ کرکے حکومت قائم کرلی۔ عوامی جمہوریہ یمن نام رکھا گیا، جس میں عدن کی بندرگاہ شامل تھی۔ یوں سرد جنگ کے زمانے میں سوویت روس کے پاس ایک اہم بندرگاہ آگئی۔ اب عالمی طاقتوں کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔ شمالی اور جنوبی یمن میں جنگوں کا آغاز ہوا۔ دونوں جانب سے اسلحہ فروخت لگا۔ ایک طرف جمہوریت اور دوسری طرف کمیونزم۔ علی عبداللہ صالح 1978ء میں شمالی یمن کا صدر منتخب ہوا تو اس کے خلاف کیمونسٹ انقلاب لانے کی جدوجہد کا آغاز اور دوسری جانب جنوبی یمن میں کیمونسٹ گروہ آزادی کے نام پر آپس میں لڑ پڑے۔جنوبی یمن کا صدر علی نصر محمد بھاگ گیا،جسے اس کی غیر موجودگی میں پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ پانچ سال قتل و غارت ہوتی رہی۔ اسی دوران 1990ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ کیمونسٹوں کا دنیا میں کوئی والی وارث نہ رہا۔ سب کے سب امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ 1993ء میں شمالی اور جنوبی یمن کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی، لیکن چونکہ دونوں کی افواج علیحدہ تھی اس لئے جنگ چلتی رہی یہاں تک کہ شمالی یمن کی افواج نے ایک روز عدن پر قبضہ کرلیا۔ مسلسل خانہ جنگی جاری تھی، دونوں جانب خون بہہ رہا تھا کہ یمن میں القاعدہ نے خود کو منظم کرنا شروع کردیا۔ اسامہ بن لادن اسی سرزمین سے تھے۔ گیارہ ستمبر آگیا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے القاعدہ کے مجاہدین میں یمن والوں کا ایک بہت بڑا حصہ تھا۔ کچھ پکڑے گئے۔ گوانتاناموبے جا پہنچے اور باقی یمن لوٹ کر آگئے۔ گیارہ ستمبر سے پہلے یمن میں القاعدہ امریکی بحری جہاز پر حملہ کرکے 17 امریکی فوجیوں کو مار چکی تھی۔ یمن میں ان پر کریک ڈاؤن شروع ہوا۔سو سے زیادہ وہ مسلمان علماء جو باہر سے آئے ہوئے تھے ان کو ملک بدر کر دیا گیا۔ امریکی جہاز پر حملے کے شبے میں بے شمار افراد گرفتار ہوئے،لیکن 2002ء میں وہ جیل توڑ کر فرار ہو گئے۔ پوری دنیا میں یمن کے مجاہد اس لئے مشہور تھے کہ وہ ہر ملک میں جاکر امریکی افواج کے مقابل جا کر لڑتے تھے۔ افغانستان کے بعدمزاحمت کا دوسرا بڑا مرکز یمن سمجھا جاتا تھا۔ یہاں حالات خراب کرنے کے لیے حوثی سلسلے کے سربراہ حسین الحوثی کو بغاوت پر اکسایا گیا۔ 2004ء میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ صلح ہوئی لیکن اگلے پانچ سال پھر فسادات چلتے رہے۔ 2008ء میں صنعاء کی امریکی ایمبسی پر حملہ ہوا اور 18 افراد مارے گئے۔ کبھی جنگ، کبھی صلح۔۔۔ فساد چلتا رہا۔ 2009ء میں القاعدہ کے 176مشتبہ افراد رہا کیے گئے لیکن امن پھر بھی نہ ہوسکا۔ اب 2011ء کی عرب بہار آگئی جس نے مراکش، تیونس، اردن اور شام کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا، یمن میں بھی ہنگامے،جلوس، دھرنے شروع ہوئے۔ صدر علی عبداللہ صالح پر حملہ ہوا، بری طرح زخمی ہوگیا۔ اس نے 2013ء میں آئندہ صدارتی انتخاب نہ لڑنے کا اعلان کر دیا، لیکن امریکہ نے ڈرون حملے شروع کر دیئے۔ 2014ء میں صلح ہوئی لیکن ایران کی شہ پر حوثی باغیوں نے صلح کو ماننے سے انکار کر دیا۔ 2015ء میں حوثیوں نے صنعاء پر قبضہ کرکے جنگ کی آگ مزید بھڑکا دی۔ اب اس محاذ پر ایک جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سامنے آگئے اور دوسری جانب حوثی میدان میں اتر ے جنہیں ایران کی حمایت حاصل تھی۔ یہ جنگ یمن تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا۔ یوں تو یہ ایران اور سعودی عرب کی جنگ کہلائی جاتی رہی لیکن اسے مسلکی تڑکا بھی لگایا گیا اور عرب و عجم کی جنگ بھی بنا یا گیا۔ (جاری ہے)