92۔میڈیا گروپ کے چیئرمین محترم میاں محمد حنیف صاحب نے رواں ماہِ مبارکہ کے پُر نور لمحات میںسحر وافطار کی خصوصی نشریات کے ساتھ قرآنی افکار وتعلیمات کے ابلاغ کے لیے ’’نور ِ قرآن‘‘کے نام سے لائیو ٹرانسمیشن کا اہتمام فرمایا،جس میں روزانہ قرآن پاک کے ایک پارے کے مضامین سے اکتساب فیض کیاجانا مقصود تھا،اس پروگرام کی میزبانی کی سعادت کے لیے قرعہ فال اس کالم نگار کے نام نکلا،ماہِ رمضان المبارک میں سحری کے بعد کی نیند کا اپنا ہی لطف ہے…کہ اسی سے روزہ دار بقیہ سارا دن توانا رہتا ہے ، تاہم قرآنی مضامین واحکام سے آگاہی کے شوق میں، اس پروگرام سے منسلک ہونے کی سعادت سے بہر ہ مندہوگیا۔ یکم رمضان المبارک1440ھ صبح7تا 8بجے ، یہ پروگرام 92،ایچ ڈی ٹی وی پر روزانہ نشر ہورہا ہے ، جس میں محترم مفتی محمد فاروق القادری صاحب کی مستقل موجودگی، اس کی علمی وقعت میں اضافے کا باعث ہے ۔ پروگرام کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا اختتام حمدِ باری تعالیٰ پر، جبکہ’’ اسماء الحسنیٰ ‘‘ میں سے ایک اسم مبارکہ ، اور قرآنی وظائف میں ایک وظیفہ ،بھی روزانہ کی نشریات کا حصہ ہے ۔ اسی طرح لائیو کالز کے ذریعہ ناظرین پروگرام میں شامل ہو کر ،پینل سے اپنے سوالات کر سکتے ہیں ۔ روزانہ مختلف کالز کا تانتا بند ھا رہتا ہے ۔ دو روز قبل ایک کالر نے ’’سبعہ معلقات‘‘ کے بارے میں سوال کیا،توتاریخ ادبِ عربی کے اس نادر تاریخی ، تہذیبی بلکہ علمی گوشے سے اپنے قارئین کو آگاہ کرنے کو جی چاہا۔ سبع مُعلقات(The Seven Suspended Poems)یعنی وہ سات عربی قصائد ،جو اپنی فصاحت وبلاغت اور فکر وفن کے سبب، عرب دنیا میں ممتاز اور معتبرحیثیت کے حامل ہو ئے اور انہیں خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکائے جانے کا اعزاز میسر آیا۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے 250سال قبل تک کے عربوں کا سرمایۂ شعر وسخن ایامِ جاہلیت کی شاعری کہلاتا ہے ۔ اس سے پہلے کالٹریچر میسر نہیں ،اس دور میں اہلِ عرب علمی اور فکری اعتبار سے دنیا کی پس ماندہ قوم تصور ہوتے ، وہ علوم وفنون اور تمدن سے بے بہرہ تھے ،لیکن سُخن وری کے میدان میں دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلّہ نہ تھی ۔ اُنہیں خود بھی اپنی فصیح اللسانی پر بڑا ناز تھا ۔ چنانچہ وہ اپنے مقابلے میں دوسروں کو ژولیدہ بیان سمجھتے اور ’’عجمی‘‘ یعنی گونگا کہتے ۔عربوں کا چونکہ بیرون دنیا سے بہت زیادہ رابطہ نہ تھا ،مخصوص تجارتی اسفار کے علاوہ، اپنے اپنے علاقے اورخطے سے باہر نہ جاتے ،مقامی معاشرت میں ان کے مقامی میلوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی ، جن میں ’’مجنہ‘‘ اور ’’ ذوالمجاز‘‘ شہرت کے حامل، جبکہ’’ عُکاظ ‘‘ بین الاقوامی سطح پر معتبر تھا ۔دور دراز سے شرکت کے لیے آنے والے قافلوں کے لیے امن وامان کے ساتھ ان اسواق میںشمولیت اور پھر اطمینان کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کو واپسی کوممکن بنایا گیا تھا ۔ ذی قعدہ ، ذوالحجہ ،محرم اور رجب ، ان چار مہینوں کواسلام سے قبل بھی، عرب میں حرمت والے مہینے کا درجہ حاصل تھا۔ ان میں جنگ اور غارت گری روک دی جاتی تھی اور مکمل امن وامان کی فضا برقرار رکھی جاتی ، اسلام نے بھی اس حرمت کو برقرا ررکھا۔ اسی ’’عکاظ ‘‘ ہی میں ’’ نابغہ ذبیانی‘‘ کا سرخ چرمی خیمہ نصب کیا جاتا اور بڑے بڑے شعر اء اپنا کلام اس کے سامنے پیش کرتے اورسال بھر کے بہترین قصیدے کا فیصلہ ہوتا،جو قصیدہ بہترین قرار پاتا ،اُسے آبِ زر سے ’’قماش مصری‘‘ پہ لکھ کر ،خانہ کعبہ پر لٹکادیا جاتا ، گویا یہ ایک اعلانِ عام ہوتا، کہ زمانہ حج میں پوری دنیا سے آئے ہوئے لوگ اور مختلف قبائل کے نمائندگان اُسے پڑھ اور سن لیں اور اس کا چرچا سارے عرب میں ہوجائے ،تاکہ آئندہ برس قصائد لکھنے والے ،اس قصیدہ کومعیار بنا کر ، اس کی ٹکر کا کلام تخلیق کرنے کی کوشش کریں ۔ اگرچہ کعبے میں یہ قصائد یا اشعار آویزاں کرنا ،سوقِ عکاظ کے فیصلے ہی سے مشروط اور مربوط تھا، تاہم بعض قصائد اور تحریریں "As a Special Case"از خود آویزاں بھی کردی جاتیں، جس طرح بعض روایات کے مطابق سورئہ الکوثر جب نازل ہوئی تو اس کو بھی کعبہ کی دیوار سے لٹکایا گیا۔ عکاظ میں ہی سرور دو عالم ﷺ نے عرب کے معروف خطیب ’’ قس بن ساعدہ الایادی‘‘ کو ایک خاکستری اونٹ پر سوار… اپنا وہ مشہور خطبہ دیتے ہوئے سنا یاجس کے مرصع الفاظ نے آپ ﷺ کی خاطر عاطر پر اچھا تاثر چھوڑا ، جس کا ذکر آپ نبی اکرم ﷺ کے فرامین میں یوں ملتا ہے کہ :’’ اللہ قس پر رحم فرمائے ، مجھے امید ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنی ذات میں ایک امت کے طور پر اٹھایا جائے گا۔‘‘ قبل از اسلام خطیبانہ روایات میں سے بہت سے امور ،جوبعد از اسلام بھی جاری ہے ،اسی قُس بن ساعدہ کے عطا کردہ ہیں،جن میں خطیب کے لیے ضروری تھا کہ وہ مؤثر شخصیت ،بلند آواز ، سلیقہ مند ، باوقار اورخوبصورت وضع قطع کا حامل ہو، خطیب سر پر عمامہ اورہاتھ میں لاٹھی ،عصایاکمان رکھے وہ کسی بلند جگہ یاٹیلے پر کھڑا ہو، تاکہ اس کی آواز دوردراز تک جائے اور لوگ اس کو دیکھ بھی سکیں۔ خطیب کے حُسن کلام کا معیار بڑا کڑا تھا، دورانِ کلام کھانسنا ، کھکارنا ، ادھر اُدھر دیکھنا ، کوئی تکیہ کلام استعمال کرنا ( استعانت اور مدد کامفہوم رکھتا تھا ) جوکہ باعث شر م سمجھا جاتا تھا۔اسی طرح قبل از اسلام کی شاعری ، زیادہ تر زبانی روایت کے وسیلے سے پروان چڑھی ،ہر اہم شاعر کے ساتھ اس کے شاگرد اور تلامذہ اپنے استاد کے اشعار حفظ کرتے اور انہیں آگے سناتے ، اس طرح وہ اپنی شاعرانہ حیثیت وصلاحیت کو جِلا دیتا، بہت سے راوی آگے چل کر خود بڑے شاعر بنے ۔ شاعری کے لیے الگ دبستان تھے ،جن سے لوگ منسلک ہونے پر فخر کرتے ۔عرب کے کسی قبیلے میں جب کوئی شاعر اُبھرتا ،تو دیگر قبائل آکر اُسے مبارکباد دیتے ،کھانے پکائے جاتے ،خوشی کا اظہار ہوتا۔شاعر اور خطیب اپنے قبیلے کی عزت وآبرو کے تحفظ، شرافتِ خاندانی کے دفاع ، ان کے کارہائے نمایاں کو دوام بخشنے اوران کے ذکرِ خیر کو عام کرنے کا ذریعہ تھے ۔آغاز اسلام میں بھی بعض واقعات ایسے پیش آئے، جس میں شاعری اور خطابت کے تفوق کی شہادت ملتی ہے ،جیسے بنو تمیم کے وفد کا مسجد نبوی میں اپنے خطیب زبرقان بن بدر کو بطور شاعر اور عطارد بن حاجب کو بحیثیت خطیب لیکر آنا اورمقابلے میں حضرت حسان بن ثابتؓ کا شعر میں اور حضرت ثابت بن قیسؓ کا خطیب کے طور پر جواب دینا، اور وفد کاا سلام قبول کرنا ،کتب احادیث میں موجود ہے ،اس موقعہ پر اقرع بن حابس کا تبصرہ قابل توجہ ہے اس نے کہا :’’ یار سول اللہ ﷺ ! آپ ؑ کا شاعر ہمارے شاعر سے اور آپ کا خطیب ہمارے خطیب سے بڑھ کر ہے۔ ‘‘سبعہ معلقات کے شعراء میں ’’ لبید ‘‘کو اللہ نے اسلام کی نعمت سے بہرہ مند کیا ،حضر ت عمرؓ نے ایک مرتبہ اُسے کہا کہ کیا بات ہے جب سے تو نے اسلام قبول کیا ہے ،شعر ہی نہیں کہا ،اُس نے کہا سورہ البقرہ اور سورئہ آلِ عمران پڑھنے کے بعد شعر کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔