مشتاق احد یوسفی صاحب بھی رخصت ہوگئے۔۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ ستانوے برس کی عمر میں اس جہانِ بے ثبات سے یہ ہجرت ان سے محبت کرنے والوںکے لئے ایک بڑا صدمہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ خلا کبھی پْر نہیں ہوسکے گا۔ ہمیں توکئی دہائیوں سے اْردو زبان و ادب کے منظر نامہ کو یوسفی صاحب کے بغیر دیکھنے کی عادت ہی نہیں رہی تھی۔ لیکن غور کیا جائے تو بے شک اْن کا وجود ہمارے درمیان نہیں ہوگا لیکن وہ اپنی تحریروں میں سدا مْسکراتے ہوئے زندہ و جاوید دکھائی دیں گے اورعہدِ یوسفی کبھی تمام نہیں ہوگا۔ رمضان کا مہینہ اور پھر عید کا تہوار معاملاتِ روز و شب میں ہمیشہ ہی بہت خوشگوار تبدیلیاں لے کر آتاہے۔ مغرب کی تیز رفتار مشینی زندگی میں اس ماہِ پْرنْور بہت بڑی نعمت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چند دن کو ہی سہی روح کو پڑائومل گیا ہو۔ تراویح وعید نماز تمام ممالک کے مسلمان مشترکہ مساجد میں پڑھتے ہیں، اسلئے دیگر تہذیبوں مثلاً تْرکی، عربی، ایرانی ، لبنانی، انڈونیشیا،مراکش اور دیگر تہذیبوں کے طرزِ اہتمامِ رمضان و عید سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے اور یہ احساسِ یگانگت بیحد مسحور کرتا ہے۔ یوں تو سڈنی میں ایک چھوٹا سا شہر جس کا نام ’لیک اَمبا‘ ہے بھر پور رونق کے ساتھ سارے مہینے افطار سے سحر تک کْھلا رہتا ہے۔ یہ ایک طرح سے مسلمانوں کا تجارتی مرکز ہے اس لئے تقریباً تمام ہی ممالک کی اشیائے خورد و نوش مل جاتے ہیں سو میلے کا سا سماں رہتا ہے۔ یہاں افطار کے وقت تو مشروبات، کھجوریں اور پکوڑے خریدنے کی کم ہی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ کمیونٹی کے وسیع القلب افراد باری باری دکانوں کے باہر فْٹ پاتھ پر سٹالز لگاتے ہیں جبکہ مقامی کاروباری حضرات بھی اس کارِ خیر میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ یہ کام انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر ہوتا ہے۔ تمام رمضان اورعید نماز میں پاکستان کی زبوں تر ہوتی صورتِ حال کے لئے بے شمار دعائیں کی گئیں۔ یہ تو ویسے بھی ایک معمول سا بن چکا ہے کہ جب بھی کچھ خاندان یا دوست احباب جمع ہوتے ہیں تو غیر شعوری طور پر وطنِ عزیز کی سیاسی و اجتماعی صورتِ حال پر گفتگو شروع ہو جاتی ہے ملک کوئی بھی ہو بیشتر بیرونِ مْلک پاکستانی مل بیٹھتے ہیں تو اپنے مقامی مسائل پر تو شاید ہی بات کرتے ہوں مگر پاکستان کے بارے میں بیحد فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ہم بیرونِ مْلک پاکستانی جنہیں آج تک ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں ہو سکا اور نہ ہی امکان ہیں یہاں کی خوشحالی سے بھی صحیح طور پر لطف نہیں لے سکتے۔ اپنی مٹی سے شدید جذباتی لگائوکے ساتھ کبھی کبھی اس تجربہ سے بھی گزرنا پڑتا ہے کہ کوئی ٹویٹ کریں یا کالم لکھیں کچھ اصلاحِ انساں کے شوقین یہ حکم تک صادر کر دیتے ہیں کہ پاکستان سے باہر قیام پذیر افراد کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی کریں گویا جذبہ حْب الوطنی فاصلوں کا محتاج ہوتا ہے۔۔۔ خیر یہ تو یونہی بات سے بات نکل آئی آج کل پاکستان میں الیکشن کا دور دورہ ہے سو عجیب و غریب مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ کہیں سیاسی پارٹیوں میں ٹکٹوں کے سلسلے میں دھڑابندی ہے تو کہیں کرپشن سے بنائی گئی جائیدادوں کو غسلِ صحت دیا جا رہا ہے۔ اس کا انجام تو جانے کیا ہوگا لیکن استحصالی نظام تبدیل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ الیکشن کمیشن کس قانون کے تحت ان مجرمانہ سرگرمیاں رکھنے والے اْمیداواروں پر مہربان ہے ؟ فی الحال تو ان سوالات کا جواب دینے کیلئے کوئی ادارہ تیار نہیں ہے۔ یہ قطار اندر قطار سیاسی وڈیرے پوری مستی میں اپنے جرائم کے بڑے بڑے گٹھر اْٹھائے پارلیمنٹ کی طرف رواں دواں ہیں۔ سیاسی پارٹی کوئی بھی ہو ان معاشی و اخلاقی دہشت گروں پر مہربان ہے جواز کیا بنا لیا گیا ہے کہ ’الیکٹیبلزچاہیے کیونکہ ان کے بغیر ایسی پارلیمانی طاقت کا حصول نہیں ہوسکتا جس سے پارلیمنٹ میں معاشرتی بْرائیوں کے خلاف بِلز پاس کروائے جا ئیں۔ گویا فرمایا یہ جا رہا ہے کہ ان کردار باختہ نمائندوںسے توقیر و تکریم کے علَم بلند کروائے جائیں گے۔ جبکہ یہ ایک مْسلمہ حقیقت ہے کہ جو بوئوگے وہی کاٹو گے۔ تبدیلی کے دعوے کرنے والی جماعتوں نے بھی اعلان کر دیے ہیں کہ الیکشن کی ’سائنس‘ سمجھنے والوں کو ہی عوامی نمائندگی کے لائسنس دئے جائیں گے خواہ اس سے عوام الناس کا تاریخ و جغرافیہ سب تباہ ہو جائے۔ حالانکہ اس سے فرق کیا پڑتا ہے قاتل دریا میں تیرنے لگے یا پہاڑ پہ چڑھ جائے رہتا تو قاتل ہی ہے۔ اور یہ جو ہم جیسے دیوانے کئی برسوں سے استحصالی نظام کے خلاف مسلسل واویلا کر رہے ہیں ان کی کیفیت آج کل قتیل شفائی صاحب کے اس شعر جیسی ہے، آس کا پنچھی اْڑتے اْڑتے دْور اْفق پر ڈْوب گیا روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی شاید یہی حد سے بڑھی ہوئی مایوسی ہے کہ عوام اپنے غصہ کا اظہارکرنے کو اپنے حلقوں میں ووٹ مانگنے کے کے لئے آئے ہوئے نمائندوں کو گھیر کر شور شرابا کر رہے ہیں اگرچہ اس ردِّ عمل کی حیثیت مرّوجہ مضبوط ترین سرمایہ دارانہ گٹھ جوڑ کے مقابلے میں کمزور سی آہ و بْکا جیسی ہے۔ جبکہ اس حوالے سے حضرت میاں محمد بخش صاحب بہت پہلے کہہ گئے ہیں تے بس اساڈا وَ س نئیں چلدا ہْن کی ساڈا ہونا لِسّے دا کی زور محمد نَس جانا یا رونا تمام سیاسی پارٹیوں میں خواہ جتنا مرضی اختلاف ہو خواتین کے کو کم سے کمنمائندگی دینے کی قدرِ مشترک بدرجہ اتم موجود ہے۔۔ عورت کے جائز حقوق دینا ان میں سے کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ گزری ہوئی اور آنے والی حکومتوں کا تو ذکر ہی کیا نگران حکومت کے وزیرِ اعظم ریٹائرڈ جسٹس ناصرالمْلک کے سرمایہ جائیدادوں کی طویل فہرست بھی غرقِ حیرت کردیتی ہے اگرچہ غالب امکان ہے کہ ان کی قیمتیں کسی ماہر اکائونٹنٹ کی مدد سے بہت کم لگائی گئی ہوں گی۔ سو طے ہوا کہ وطنِ عزیز میں وزیرِ اعظم سابق ہو یا نگران ’’اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘۔ یوں تو ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار کے علاوہ کسی سیاسی پارٹی کا کوئی ٹھوس منشور سِرے سے سامنے نہیں آرہا، لیکن پاکستان میں پانی کی کمی پر تو بالکل ہی بات نہیں ہو رہی جوحاضر کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ نہ ڈیمز بنانے کی تجاویز سامنے آ رہی ہیں اور نہ ہی پانی کے ذخیرے تعمیر کرنے کی۔ جبکہ تاریخِ انسانی گواہ ہے ذراعت ختم ہونے سے قومیں ختم ہوتی رہی ہیں۔ پانی کے بغیر پہلے پہل زمینیں اور پھر آہستہ آہستہ نسلیں بنجر ہو جاتی ہیں۔ عوام کو چاہئے کہ ان کے حلقے کانمائندہ خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو اگر پانی کی کمی کو پْورا کرنے کیلئے کوئی منصوبہ پیش نہیں کرتا تو اْسے ووٹ نہ دیں بلکہ تقاضہ کریں بالخصوص جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقہ تھر میں فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے پہلے ہی بے انتہا تاخیر ہوچکی۔۔ پانی کا ختم ہونا زندگی کا ختم ہونا ہے اپنی زندگیوں کی اہمیت کو سمجھیں اورہرگز موت کو ووٹ نہ دیں۔۔ نو واٹر نو ووٹ!!! ان دنوں سیاسی سرکس کو دیکھ کر سچّے انقلابی مْنّو بھائی کی ایک بار پھر نظم یادآ گئی احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر چوراں ، ڈاکوئواں، قاتلاں کولوں چوراں ،ڈاکوئواں، قاتلاں بارے کی پْچھدے او چوراں، ڈاکوئواں، قاتلاں کولوں منگیاں کدی ثبوت نئیں لبھدے فائلاں وِچ گواچے ہوئے بڑے بڑے کرتوت نئیںلبھدے رَل کے مارے تے مِل کے کھادے ہوئے لوکاں دیاں قبراں چوں قلبوط نئیں لبھدے احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر ویسے تہانوں وی پتہ تے ہوناں اے کہ وِیح کنالاں دی کوٹھی دے وِچ پنج پجارو،چالیس کْتّے پَنجِ نوکر، دَس کنیزاں کِتّھوںآئیاں کِتھے لگیاں اے ٹکسالاں دیس پرائیبڑیاں چیزاں کِتھوںآئیاں کِتھوں آیا چِٹاں پوڈر، کالی دولت کِتھوںآئی کِتھوںآئے پرمٹ لِیزاں کِتھوںآئیاں احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر اَسیں وچارے بوہڑاں تھلے اْگّن والی کاہ دے تِیلے دْھپ تے مِینہ نْوں ترس گئے آں لکھ کروڑاں دا کی کہنا، دس تے وِیہہ نوں ترس گئے آں دَس تے ویہہ نوں ترس گئے آں